خلیجی خبریں

متحدہ عرب امارات کی پولیس نے وائرل غیر اخلاقی ویڈیو سے متعدد مشتبہ افراد کی گرفتاری کے بعد 5لاکھ درہم جرمانے کی وارننگ جاری کر دی

خلیج اردو
دبئی :متحدہ عرب امارات پولیس نے خبردار کیا ہےکہ سوشل ویب سائٹس پر کوئی بھی ایسی ویڈیو شیئر نہ کی جائے جس سے عام شہریوں کی جذبات کو دکھ پہنچیں ۔

یہ وارننگ اس وقت اس وقت سامنے آئی جب متعدد مشتبہ افراد کو فحش انداز میں برتاؤ کرنے اور وائرل ہونے والی ویڈیو میں غیر اخلاقی رویہ دکھانے پر گرفتار کیا گیا ۔

شارجہ پولیس کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ اتھارٹی نے شادی کی ویڈیو پر نو مردوں اور دو خواتین کو گرفتار کیا تھا۔ ویڈیو میں مبینہ طور پر لوگوں کے گروپ کو دکھایا گیا ہے جو فحش سلوک کرتے ہیں۔ ویڈیو نے امارات کے کچھ رہائشیوں میں غم و غصے کو جنم دیا۔

دبئی پولیس کے کرمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر جمال سالم الجلاف نے کہا کہ اتھارٹی نے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو ایسے رویے میں ملوث ہیں جو اماراتی معاشرے کی اقدار کی عکاسی نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے رویے کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے جو متحدہ عرب امارات کے قانون کے تحت قابل سزا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دبئی پولیس ایسے کسی "ناقابل قبول رویے” کو برداشت نہیں کرے گی۔

اس کے پیچھے قانون

شارجہ کے ایک وکیل سلیم سہوہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے سائبر کرائم قانون کے آرٹیکل 17 کے مطابق جو کوئی بھی فحش مواد یا عوامی اخلاقیات یا اچھے اخلاق کے خلاف کوئی مواد تیار یا شائع کرے گا اسے قید اور000 250درہم کے درمیان جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قانون کے تحت ایسا کوئی بھی مواد جس میں نابالغ (18 سال سے کم عمر کے فرد) کو دکھایا گیا ہو یا نابالغوں کو لالچ دینے کے لیے ہو، مجرم کو کم از کم ایک سال قید کی سزا ہو سکتی ہے اور اس پر1لاکھ 50 ہزار درہم سے 5 لاکھ درہم تک کے درمیان جرمانہ ہو سکتا ہے،

آرٹیکل 19 کے تحت کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے کو غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مجبور کرنے کا مجرم پایا جائے گا، اسے قید اور درہم 250000 سے 1 لاکھ درہم کے درمیان جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ قید کی سزا پانچ سال تک ہو سکتی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس معاملے میں عوام میں فحش حرکات میں ملوث ہونے کی سزا چھ ماہ تک قید اور 5000 درہم جرمانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ "تمام امارات میں اس قسم کے مواد کو پوسٹ کرنے پر افراد کو حراست میں لینے، ان پر مقدمہ چلانے اور/یا سزا پانے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button