پاکستانی خبریں

میں نشے میں بے ہوش ہو گیا تھا ، جب ہوش آیا تو دیکھا کہ کسی نے نور مقدم کو قتل کیا ہے، ظاہر جعفر

خلیج اردو

ہم ایک صدی قبل کے بنائے ہوئے جوڈیشل سسٹم سے چمٹے ہوئے ہیں جبکہ دور جدید کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ جہاں تفتیش ، تحقیقات اور شواہد اکھٹا کرنے کیلئے دنیا میں ٹیکنالوجی اور نت نئے طریقے استعمال ہورہے ہیں وہاں ہمارے پاس وہی اوٹ ڈیٹڈ پروسیجر فالو کیا جارہا ہے۔

اب سین ایسے ہیں کہ نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے عدالت کی جانب سے دیئے گئے سولنامے کا ایسا جواب دیا ہے جس کے بعد کوئی معجزہ ہو یا پھر قانون سے ماورا کو اقدام اٹھایا جائے تو شاید انصاف ہو جائے۔

ملزم کے وکیل نے عدالت کی جانب سے فراہم کردہ 25 سوالات کے تحریری جواب میں مرکزی ملزم نور مقدم کو قتل کرنے کے الزام سے صاف مکر گیا اور کہا کہ کیس میں اور میرے والدین بے گناہ ہیں۔ مدعی کے بااثر ہونے کی وجہ سے مجھے ملوث کرکے ریاستی مشینری کا میرے خلاف بے دریغ استعمال کیا گیا۔

وکیل عثمان گل نے مرکزی ملزم کی جانب سے جوابات لکھوائے ہیں جس میں ظاہر جعفر نے بتایا کہ میرے والدین اور دیگر خاندان کے افراد عید کیلئے کراچی میں تھے میں گھر میں اکیلا تھا ۔20 جولائی کو نور مقدم نے اپنے دوستوں کے ہمراہ میرے گھر میں ڈرگ پارٹی رکھی ۔اس پارٹی میں میرے سمیت تمام دوستوں اور مقتولہ نے منشیات کا استعمال کیا اور میں منشیات کے زیادہ استعمال سے ہوش و حواس میں نہیں رہا۔

ظاہر جعفر نے کہا کہ چند گھنٹوں بعد جب مجھے ہوش آئی تو میں نے خود کو اپنے لاؤنج میں بندھا ہوا پایا
اور کچھ دیر کے بعد باوردی پولیس اور سول کپڑوں میں افراد نے ریسکیو کیا اور معلوم ہوا کہ نور مقدم کو ڈرگ پارٹی میں شرکت کرنے والوں یا کسی اور نے قتل کردیا۔

ملزم کا کہنا ہے کہ 19 جولائی کو امریکا فلائٹ کیلئے گھر پر ٹیکسی منگوائی تو نور مقدم نے زبردستی اس کو بھی واپس بھجوا دیا۔ڈی این اے اس لیے مثبت آیا کیونکہ ہم دونوں باہمی رضا مندی سے جسمانی تعلق میں تھے۔ مرکزی ملزم نے اپنے دفاع میں بھی شواہد عدالت کے سامنے پیش کرنے کی استدعا کردی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button