پاکستانی خبریںعالمی خبریں

انتخابات کیلئے کسی کے ڈکٹیشن کو نہیں مان سکتے، جو پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی اس پر عمل کیا جائے گا

خلیج اردو
اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ الیکشن کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں اور کمیٹی بناسکتا ہوں لیکن ڈکٹیشن نہیں چلے گی ۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نےکہا کہ ہم نے الیکشن کب کرانے ہیں اس کا فیصلہ ایوان اورمخلوط حکومت کرے گی، ایک سال دو ماہ ابھی حکومت کی مدت رہتی ہے، عمران خان سے بات چیت کے لئے دروازے کھلے ہیں اورکمیٹی بناسکتا ہوں لیکن کسی بھول میں نہ رہنا ، تم یہ نہ سمجھو کہ ہمیں ڈکٹیشن دے لو گے، یہ ڈکٹیشن اپنے گھر میں دو، ہم مرعوب نہیں ہوں گے ۔

وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا بل پاس کرکے شفاف انتخابات کی بنیاد رکھ دی، کیا کسی جتھے یا جماعت کو ڈنڈے کے زور پر یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ آئین سے بغاوت کرے، کیا اسے ملک میں بدامنی پھیلانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟، کیاکسی مسلح جتھےکو بغاوت کاموقع دیا جا سکتاہے؟ اتحادیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیایہ ایوان اس طرح کاموں کی اجازت دے سکتی ہے، تباہی کا رستہ اختیار کرنا ہے یا ملک کو بنانا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 22 اپریل کو میں نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا، اس روز ہمارے سامنے دو اہداف تھے، ایک شفاف الیکشن ہوں، دوسرا ڈوبتی معیشت کو محنت کرکے کنارے لگائیں، سابق حکومت نےمعیشت کابیڑہ غرق کردیا، ان حالات میں جب ہم محنت کر رہے ہیں اور معیشت درست کررہےہیں، تو ہمیں جلاؤ گھیراؤ کا پیغام دیاگیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ کیا ان حالات میں فتنہ فساد اور دھرنوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جب ڈی چوک پر حملے ہو رہے تھے اس وقت سپریم کورٹ کی دیواروں میلے کپڑے رکھے گئے تھے، قبریں کھودی گئیں، اس وقت رات کے اندھیرے میں جو کچھ کیا گیا اس کے گواہ ہم سب ہیں، ہم نے ماضی کو نہیں دہرانا بلکہ ملک کو معاشی طور پر آگے لےجانا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ عمران نیازی کے حق میں فیصلہ دے تو یہ خوش اورنہ دے تو تنقید کرتے ہیں، عمران نیازی نےعدلیہ اوراداروں کوکھلےعام بدنام کیا،گالیاں دیں، اس شخص نے کہا تھا کہ فلاں چیف جسٹس میرا کیس سنیں تو تیار ہوں، جب انہوں نے سنا اور فیصلہ کیا تو اس نے دشنام طرازی شروع کر دی، پچھلے4سال میں گالی گلوچ کےعلاوہ کچھ نہیں ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس ایوان نے آصف زرداری، بلاول بھٹو، اسعد محمود، مولانا فضل الرحمن، خالد مقبول ، اختر مینگل نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اس فتنے کا علاج کرنا ہے یا ملک کو تباہ ہوتے دیکھنا ہے، ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ تباہی کی طرف جانا ہے یا ترقی کی طرف، میرا وطن اور عوام کب تک اس سنگین مذاق کوبھگتتے رہیں گے، کے پی پولیس اور وزیر اعلیٰ مسلح جتھوں کے ساتھ آئے یہ کہیں دنیا میں نہیں ہوتا، ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ مسلح جتھوں کے ساتھ وفاق پرحملہ آور ہوا۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button