پاکستانی خبریںعالمی خبریں

فیصلہ حق میں آئے تو جشن مناتے ہیں، خلاف آئے تو کہا جاتا ہے انصاف تار تار ہوا، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے ریمارکس

خلیج اردو
اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 کی تشریح پردلائل جاری۔۔۔۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نےریمارکس دئیے کہ سیاسی جماعتیں پارٹی انحراف پر نیوٹرل کیوں ہیں۔ منحرف کو دوسری جگہ عہدہ دے دیا جاتا ہے۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پرسماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ وکیل پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے منحرف اراکین کی تاحایات نااہلی پر کوئی آئینی دلیل نہیں دی ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سب سے پہلے طے کرنا ہے منحرف ہونا درست ہے یا غلط۔ ۔ جسٹس جمال کا کہناتھا کہ اگر پارٹی سے انحراف جرم ہے تو مجرم کا ووٹ کیوں شمار ہوتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک بولے قتل کا ارادہ کرنے پر 302 کا کیس نہیں بن سکتا ۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے سینٹ الیکشن کیس میں رائے دی کسی نے پیروی نہیں کی ۔ سیاسی جماعتیں پارٹی انحراف پر نیوٹرل کیوں ہیں۔ منحرف کو دوسری جگہ عہدہ دیدیا جاتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پارٹی سے انحراف کی سزا کیا ہو گی ؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی اسمبلی کی بقیہ مدت تک ہو گی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملک انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کوئی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں ۔عمومی بات نہ کریں۔ جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ارٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد نااہلی ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ارٹیکل تریسٹھ اے کا مطلب منحرف رکن کو پھانسی دینا بھی نہیں۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ نحرف ہونا اتنا بڑا جرم ہے تو وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی۔ کیس کی سماعت کل دن ایک بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button