خلیج اردو
اسلام آباد: سوشل میڈیا پراسلام آباد پولیس اس بات کو لے کر تنقید کی زد میں ہے کہ وفاقی پولیس نے مبینہ طور پر وزیر انسانی حقوق شیری مزاری کی صاحبزادی اور ممتاز سماجی رہنما ایمان زینب مزاری کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس حوالے مذمتی ٹرینڈ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
FIR has been sealed against @ImaanZHazir and hundreds of Baloch students, on what basis really @ICT_Police? Please stop this madness @GovtofPakistan https://t.co/roO51f45rE
— Nighat Dad (@nighatdad) March 3, 2022
تاہم اس حوالے سے اسلام آباد پولیس نے وضاحت جاری کی ہے کہ وفاقی پولیس نےغداری کے جرم کے تحت کوئی بھی ایف آئی آر درج نہ کی ہے اور ایف آئی آر میں غداری کی دفعہ کے متعلق چلنے والی رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق ایف آئی آر میں محسن داوڑ سمیت کسی بھی پارلیمنٹیرین کا نام بھی شامل نہیں۔
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے مجمع خلاف قانون کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا معاملہ pic.twitter.com/91wXVd7m7D
— Islamabad Police (@ICT_Police) March 3, 2022
پولیس نے مذکورہ واقعے کی تفصیلات بارے بتایا ہے کہ مظاہرین کو اسلام آباد انتظامیہ نے پریس کلب تک احتجاج محدود رکھنے کا کہا لیکن مظاہرین نے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا اور پولیس کے ساتھ مزاحمت شروع کردی۔
پولیس نے بتایا ہے کہ اس مزاحمت کے دوران تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے جس کے بعد واقعہ پر قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور درج شدہ ایف آئی آر میں صرف مجمع خلاف قانون میں شامل اور ان کو اشتعال دلانے والے افراد کا نام شامل کیا گیا ہے۔
پولیس نے تردید کی ہے کہ ایف آئی آر میں نہ ہی کسی پارلیمنٹیرین کا نام شامل کیا گیا نہ ہی غداری کی دفعہ لگائی گئی بلکہ ایک مجمع خلاف قانون کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی گئی۔
ترجمان پولیس کے مطابق پچھلے دو دن سے بھی مظاہرین پریس کلب پر موجود ہیں چونکہ وہ پر امن ہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی ہے۔ یہ بھی وضح کیا گیا ہے کہ کیس کی تفتیش بھی میرٹ پر کی جائے گی۔
پولیس نے جس ٹکراؤ کا ذکر کیا ہے وہ دراصل گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بلوچ طلباء کی جانب سے اسلام آباد میں ایک احتجاج کے دوران پیش ہونے والا واقعے ہے جہاں اسلام آباد کے ریڈزون جانے کی کوشش کرنے والے طلباء پر مبینہ طور پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔
احتجاج کرنے والے طلباء سے جب خلیج اردو نے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک ساتھی طالب علم کو لاپتہ کیا گیا ہے جس کی بازیابی کیلئے وہ احتجاج کررہے ہیں۔
حفیظ بلوچ نامی طالب علم کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی کیمپ لگایا گیا ہے جس سے اظہار یکجہتی کیلئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد وہاں کا دورہ کررہے ہیں۔
Hafeez Baloch was kidnapped from a tution centre not from any terror training camp. #ReleaseHafeezBaloch https://t.co/kOHbZ0HwBA
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) March 3, 2022
پاکستان میں دو بڑی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی کیمپ کا دورہ کیا ہے۔
Solidarity with Baloch students camping outside National Press Club in the freezing cold demanding the release of disappeared student, Hafeez Baloch, and an end intimidation of Baloch students on campuses.Our young people need political solutions to their problems,not repression pic.twitter.com/wbVxD0Msmo
— SenatorSherryRehman (@sherryrehman) March 3, 2022