پاکستانی خبریںعالمی خبریں

پارٹی پالیسی سے انحراف : 24 سالوں میں صرف ایک کیس آیا جس سے سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی عیاں ہے، چیف جسٹس

خلیج اردو
اسلام آباد : سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پرسماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 63 اے کا 1998 سے آج تک صرف ایک کیس آیا ۔مطلب یہ ہے کہ پارٹی سربراہ نے آرٹیکل کو سریس نہیں۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا کہ اٹھارہوں ترمیم میں ارٹیکل تریسٹھ اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ۔صدارتی ریفرنس ارٹیکل تریسٹھ اے کے خلاف نہیں ۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا 1998 سے آج تک صرف ایک کیس آیا ہے اس کا مطلب ہے پارٹی سربراہ نے آرٹیکل کو سریس نہیں لیا۔ وکیل فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سیاست میں لچک ہے سیاست میں سخت گیری سے انتشار پھیلتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ارٹیکل تریسٹھ اے میں چار مواقعوں پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کیا ہے۔ ارٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد پارٹی سے دفاداری کو یقینی بنانا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹکٹ ہولڈر اپنے کاغذات نامزدگی میں حلف دیتا ہےکہ وہ پارٹی پالیسی ڈسپلن کا پابند رہے گا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ رکن کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی؟ کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی ؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بے وفائی سخت لفظ ہے اس کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر نہیں۔ قانون سازوں نے آرٹیکل 63 اے میں منحرف رکن کے لیے نااہلی کا تعین نہیں کیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آزاد کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا۔ فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت گھوڑے اور گدھے کو ایک نہیں کر سکتی۔۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں۔ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟

فاروق نائیک نے کہا کہ منحرف اراکین ڈی سیٹ ہوتے ہیں لیکن نااہل نہیں۔چیف جسٹس نے فاروق نائیک کے دلائل کی تعریف کی اور کہا کہ اپ نے بہت سارے گرے ایریاز کو کلئیر کیا ہے۔۔کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button