پاکستانی خبریں

اگر سپہ سالار غدار ہے تو ان سے چھپ کر کیوں ملتے ہو،افواج پاکستان کے اہم عہدیداران کی پریس کانفرنس میں ملک کی سیاست اور ارشد شریف قتل سے متعلق اہم سوالات اور انکشافات

خلیج اردو

راولپنڈی: پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ صحافی ارشد شریف کےخاندان میں غازی اور شہید بھی ہیں۔ ان کے قتل کی کینیا میں انکوائری ہورہی ہے، میں کینیا میں ہم منصب سے رابطے میں ہوں۔ جو تحقیقات ہورہی ہیں اس میں حکومت اور ہم مطمئن نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف یہاں تھے تو ان کا ادارے سے رابطہ بھی تھا۔جب وہ باہر گئے تب بھی ارشد شریف نے رابطہ رکھا، ارشد شریف واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پاکستان کے صحافی بہت خطرات کے باوجود اپنا کام بہت اچھا کررہے ہیں۔

 

آئی ایس آئی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ صحافی ارشد شریف واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے اور ان کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔۔۔۔ یہ بھی کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری  کیا تو ہماری تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں تھا۔

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک ایکسٹینشن دینے کی  پیشکش کی تھی۔ انہوں نے عمران خان کی آرمی چیف سے خفیہ ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ سپہ سالار اگر غدار ہے تو آپ رات کے اندھیرے میں کیوں ملتے ہیں

 

جنرل ندیم نے پیشکش کی مارچ 2021 کے بعد کسی الیکشن میں فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا ثبوت ہے تو لائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ فوج کو کسی لانگ مارچ، دھرنے اور احتجاج سے کوئی اختلاف نہیں۔ایک صحافی کی جانب سے عمران خان کو اقتدار میں لانے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ اس پر سیر حاصل گفتگو پھر کبھی ہوسکتی ہے۔

 

ان کے ہمراہ افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے انکشاف کیا کہ ارشد شریف کو سکیورٹی تھریٹ وزیراعلی خیبرپختونخواہ کی خصوصی ہدایت پر جاری کیا گیا جس کا مقصد انہیں باہر جانے پر مجبور کرنا تھا۔ سوال اٹھایا کہ ارشد شریف سے رابطہ میں رہنے والے لوگ کون تھے اور کس نے ارشد شریف کا ان سے رابطہ کروایا؟ یو اے ای میں ان کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا۔

 

ارشد شریف کو پاکستان کی صحافت کا آئیکون قرار دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ارشد شریف کی موت کے بعد لوگوں نے رخ فوج کی طرف موڑنا شروع کردیا۔ اس سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے حتمی رپورٹ سامنے آنے تک کسی پر الزام تراشی کسی صورت مناسب نہ ہوگی۔

 

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف ایک فوجی کے بیٹے، ایک شہید کے بھائی تھے، دکھ تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔

 

پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ سائفر سے متعلق من گھڑت کہانی سنائی گئی، آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد ہی نہیں ملے۔حقائق قوم کے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن اُس وقت کی حکومت نے ایسا نہ کرنے دیا۔ واضح کیا کہ سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ آرمی چیف سمیت پورے ادارے کا تھا۔

 

انہوں نے کہا کہ سائفر کا بہانہ بنا کر أفواج پاکستان کی تضحیک کی گئی۔ غیر آئینی کام سے انکار کرنے پر میر جعفر اور میر صادق کے القاب دئیے گئے،پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو آئین کے خلاف تھی۔

 

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی سیاستدان خود مسئلہ حل کریں لیکن ایسانہ ہو سکا،سوال اٹھایا کہ سائفر کے معاملے پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟

 

انہوں نے واضح کیا کہ احتجاج جمہوری حق ہے لیکن کسی کو بھی ملک کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اگر ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو پچھلے 20 سال سے ہم اپنے خون سے منہ دھو رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button