پاکستانی خبریںعالمی خبریں

آرمی چیف جدھر دیکھتا ہے ، سات لاکھ فوج اس جانب کھڑی ہو جاتی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

خلیج اردو
راولپنڈی : افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے جمعرات کے روز صحافیوں کو بریفنگ دی اور رپورٹرز کے سوالات کے جوابات دیئے۔

ملکی سیاسی منظرنامے اور قومی سلامتی کے معاملات سمیت افواج پاکستان کے خلاف چلنے والی مہم اور دیگر معاملات پر بات چیت کی۔

جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیےگئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی اور آئین و قانون کی بالادستی کو پیش نظر رکھنے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ فارمیشن کمانڈرز اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا اور سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی ، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرہ کار میں رہنا ملکی مفاد میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی ۔ سال کے پہلے تین ماہ 128دہشت گرد ہلاک اور 270گرفتار کیے گئے اور پاک فوج کے 168افسران جوان عالمی سطح پر امن کوششوں میں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے ملکی سیاسی منظرنامے پر گفتگو میں بتایا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو فوج سے متعلق بات کرتے ہوئے احتیاط کرنا چاہیئے اور فوج کو آپس کے تنازعات سے دور رکھنا چاہیئے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر فوج کے خلاف کوئی مہم چلائی جارہی ہو تو اس کا سدباب کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر فوج کے خلاف کوئی مہم چلا رہا ہوں تو فوج کو قانونی چارہ جوئی کا حق ہے لیکن اس کیلئے حکومت وقت کے مدد درکار ہوتی ہے۔

افواج پاکستان کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی سائفر میں استعمال ہونے والی زبان کی پاکستان نے مذمت کی اور جو فوج کا موقف ہے وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں موجود ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ مذکورہ اعلامیے میں کسی بیرونی سازش کا ذکر نہیں تھا۔

جب سوال پوچھا گیا کہ کیا عمران خان کو اداروں نے کچھ آپشنز دیئے تو ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی آپشنز نہیں دیئے گئے تاہم انہون نے بتایا کہ سابقہ حکومت نے مدد طلب کی تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کی بات سنی اور اسے اپوزیشن تک پہنچایا۔ یہ سب سابق حکومت کی درخواست پر ہوا۔

ایک کے سوال کے جواب میں جنرل بابر نے بتایا کہ نو اپریل کی رات کسی قسم کے مارشل لا لگائے جانے یا آرمی چیف کی کسی ناخوشگوار ملاقات کے حوالے سے کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کسی بھی صورت مارشل لا نہیں لگے گا اور ملک کی بقا جمہوریت میں ہے۔

جنرل بابر نے کہا کہ آرمی چیف کا حکم فوج میں اٹل ہے اور فوج یونیٹی آف کمانڈ پر یقین رکھتی ہے اور جب آرمی چیف ایک طرف دیکھتا ہے تو پوری سات لاکھ کی فوج اس طرف کھڑی ہو جاتی ہے۔

انہون نے بتایا کہ آرمی چیف مقررہ وقت یعنی 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوجائیں گے اور وہ نہ تو ایکسٹینشن لیں گے اور نہ ہی کسی ایسے آفر کو قبول کریں گے۔

جنرل بابر افتخار نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے جانب سے فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا اور اگر مطالبہ ہوتا تو جواب وہی ہوتا جو سابق وزیر اعظم نے دیا تھا۔

پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ملک کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ یہ کسی ایک سیاسی قیادت سےمنسلک نہیں بلکہ اب تک جتنی حکومتیں آئیں ایمانداری سے انہوں نے اسےآگے بڑھایا ۔ میں واضح کر دوں کہ پاکستان کےایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button