پاکستانی خبریں

پاکستان میں قانون کی حکمرانی،وزیر اعظم لاپتہ افراد کیس میں عدالت پیش،یقینی بناؤں گا کہ لاپتہ افراد سے متعلق حقائق پر مبنی رپورٹ پیش ہو،وزیر اعظم

خلیج اردو

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر قانون اعظم تارڑ عدالت میں پیش ہوئے ۔

 

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر ریمارکس دیے کہ تاثر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو لاپتہ کرتے ہیں ۔ عدالت لاپتہ افراد کا معاملہ بارہا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج چکی ہے ۔ سنگین معاملے پر ریاست کا رویہ ذمہ دارانہ ہونا چاہئے۔

 

وزیر اعظم نے کہا کہ عدالت کو یقینی دہانی کراتا ہوں کہ حکومت لاپتہ افراد کے معاملے پر محنت سے کام کرے گی ۔ کابینہ کمیٹی کی خود نگرانی کروں گا ۔ حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے گی ۔ مسٹر شریف نے کہا کہ ایک سابق ڈکٹیٹر کے دور میں ملک کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ۔ خود ان کا خاندان بھی اس ڈکٹیٹر کی پالیسیوں سے متاثر ہوا ۔ عوام کی خدمت کے باوجود جیلوں میں جانا پڑا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گورننس سمیت تمام مسائل آئین پر عمل سے حل ہوں گے ۔ جبری گمشدگی آئین سے انحراف ہے ۔ حکومت کے پاس ایجنسیاں ہیں تحقیقات کرائیں ۔ عدالت پارلیمان کا احترام کرتی ہے ۔ لاپتہ افراد کے معاملہ پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ ایگزیکٹو کو یقینی بنانا ہو گا کہ اب کوئی لاپتہ نہ ہو ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی کونسل کے ارکان کو گمشدگیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے ۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے

چیف جسٹس نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کمیشن لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے اذیت کا باعث بن رہا ہے۔ دوران سماعت سماجی کارکن آمنہ جنجوعہ نے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال کو عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی۔ اٹارنی جنرل نے جبری گمشدگیوں پر قانون سازی کے لیے مہلت کی استدعا کی جس پر عدالت نے دو ماہ کی مہلت دے دی ہے ۔ عدالت کیس کی مزید سماعت چودہ نومبر کو کرے گی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button