پاکستانی خبریں

پاکستان کی سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کے خلاف کیس میں چیف جسٹس نے ساتھی ججز کو سوالات سے روکا تو جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں بھی اس عدالت کا جج ہوں

خلیج اردو

اسلام آباد: سپریم کورٹ پریکٹیس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت آج بھی مکمل نہ ہو سی۔ سیاسی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے نے درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے آرٹیکل 184 تھری کے ماضی میں استعمال کو ڈیزاسٹر قرار دے دیا۔ ریمارکس دیئے کہ اس کے استعمال نے ملک کی بنیادیں ہلادیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی اور وائس چیرمین پاکستان بار کونسل نے دلائل مکمل کرلیے، دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، جسٹس عائشہ اے ملک نے کہاکہ یہاں سوال اپیل سپریم کورٹ میں آنے یا یا آنے کا نہیں بلکہ اپیل کے ذریعے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے کا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیارکو قانون کے مطابق بڑھایا جا سکتا ہے،

وکیل نے لاء ریفارمز آرڈیننس کا حوالہ دیا تو جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ مالٹے کا موازنہ سیب سے کر رہے ہیں، پارلیمنٹ میں اپیل دینے کی براہ راست اجازت بھی نہیں دی گئی۔ آئین میں پارلیمنٹ کوسپریم کورٹ سےمتعلق براہراست قانون سازی کا اختیار درج نہیں ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ممکن ہے کوئی میرے سوال سے اتفاق نہ کرے ۔لیکن ایکٹ سے امتیاز پیدا ہوگا اور کسی کو اپیل کا حق ملے گا کسی کو نہیں ملے گا۔ پارلیمان کے مطابق سپریم کورٹ کے ہر حکم کی اپیل ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر لارجر بینچ ہے تو اپیل نہیں ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل میں جب بات ائے گی تو ہم بھی سمجھیں گے ۔ ہو سکتا ہے کبھی فل کورٹ نہ بیٹھے ،ہم مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوموٹواختیار پر اہم ریما رکس میں کہا آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں،

دوران سماعت جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس اعجاز الاحسن نے سوالات کیے تو چیف جسٹس نے روکتے ہوئے وکیل کو مخاطب کیا اور ریمارکس دیے ہر سوال کا جواب نہ دیں۔ صرف اپنے دلائل پرتوجہ دیں۔ ایک موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب کے درمیان تکرار ہو گئی۔ جسٹس منیب نے کہا میں بھی اس عدالت کا ایک جج ہو ں،سوال پوچھنا حق ہے،چیف جسٹس نے کہا آپ سوال ضرور پوچھیں لیکن دلائل مکمل ہونے کے بعد،بینچ میں ہر کوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں،

چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اخترنے وکیل سے سوال کیا تو،چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہاپہلے میرے سوال کا جواب دیا جائے بعد میں دوسرے سوال پر آئیں، میں نہیں چاہتا میرے سوال کے ساتھ کچھ اور آئے، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں،

 

چیف جسٹس نے کہا اگرہم نے پہلے ہی اپنے ذہن بنا لیے ہیں توہم فیصلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ کئی سال کیس نہ لگے اور ہم کہہ دیں ہماری مرضی ہم کسی کو جوابدہ نہیں؟ ہر ادارہ اپنا احتساب کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 4 سماعتوں کے باوجود ہماری یہ کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا،چیف جسٹس کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں چیف جسٹس نے ساتھ جج کو سوالات سے روکتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی وجہ سے باقی کیسز التوا کا شکار ہیں۔

ایم کیو ایم کے وکیل کی ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا،فیصل صدیقی نے کہاسپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے ،کیس کی سماعت کل تک ملتوی

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button