پاکستانی خبریں

ہیں تلخ بہت بندہٗ مزدور کے اوقات، اورسیز پاکستانیوں کو کیسے لوٹا جارہا ہے؟تفصیل لنک میں

خلیج اردو: دنیا کے چند مشکل کاموں میں سے ایک مشکل کام یہ بھی ہے کہ کوئی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی اپنے پیاروں کو چھوڑ کر پردیس کا ٹکٹ کٹا کر رشتہ داروں اور پیاروں کو الوداع کہتا ہے۔

ایسے میں جب وجہ غم معاش ہو اور اپنا اور خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے کوئی گھر کی دہلیز پار کرکے سمندر پار سفر کیلئے رواں دواں ہو جاتا ہے تو احساسات کیا ہوتے ہیں اور دل پر کیا بیت رہی ہوتی ہے، یہ صرف ایک پردیسی ہی سمجھ سکتا ہے۔

کسی پردیسی کو الوداع کرتے وقت ماں کی ممتا کا رونا، باپ کے آنکھوں میں سوال اور بہن بھائیوں کی خاموشی ایک طرف لیکن مسافر کے لبوں پر ہنسی جو کئی دکھ چھپانے کے بعد لبوں پر آتی ہے، انمول ہے۔ بیش بہا قیمت ہے۔

ارض پاکستان جو خدا کی ایک نعمت سے کم نہیں اور اس پاک دھرتی میں اگر زندگی گزارنا نصیب ہو تو شاید اس سے بڑی خوش قسمتی کوئی نہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ چونکہ ملک ترقی پزیر ہے اور کاروبار کے مواقع اتنے نہیں ہوتے کہ دووقت کی روٹی ، تن ڈھانپنے کیلئے کپڑے اور سر پر ایک چھت جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے ابن آدم کو آسانی سے روزگار مہیا ہو۔

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے لاکھوں پاکستان مختلف ممالک میں پردیس کاٹ رہے ہیں۔ ایک بہت تعداد خلیجی ممالک میں اپنی اور خاندان کی سفید پوشی کا بھر رکھنے کیلئے سرگرداں ہے اور پھت متحدہ عرب امارات تو ان کا دوسرا گھر ہے جو ان کی ضرورتوں کو سمجھ کر ان کیلئے مختلف پالیسوں سے بہتر روگاز مہیا کررہا ہے۔

حال ہی میں ایک دردناک وباکورونا نے دنیا کو جہاں لپٹ میں لیا وہاں مزدوروں سے ان کا نوالہ چھینا اوپر سے ستم ظریفی کہ ملک سفر اور دیگر دستاویزات میں معاونت کے نام پر ان کی مشکل سے کمائی کا ایک بڑا حصہ ٹریول ایجنٹ کے نام پر موجود افراد نے اینٹ لینا شروع کر دیا۔

یہ کہانی ہے کورونا میں اپنا روزگار کھونے والوں کی ، یا مجبوری میں اپنے کے پاس پاکستان لوٹ کر آںے والوں کی جنہیں کبھی ٹکٹ کے نام پر تو کبھی کورونا ٹیسٹ کے آڑ میں کبھی دیگر پیچیدگیوں کے حوالے سے لوٹا جارہا ہے یا ان کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے اور ان کے ساتھ فراڈ کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں خلیج اردو کو موصول ہونے والے متعدد شکایتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ کورونا وباء سے پہلے ٹکٹ کے مقابلے میں اب مانی چاہی قیمت وصول کی جاتی ہے اور 30سے 40 فیصد مہنگی ٹکٹ فروخت کی جاتی ہے۔ مہنگا ٹکٹ تو ایک کسی حد تک کوئی برداشت کر لے گا لیکن سوچیں اگر آپ کے ساتھ جھوٹ بولا جائے اور متحدہ عرب امارات کی قانونی تقاضوں کی آڑ میں دھوکہ کیا جائے تو کیسے جذبات ہوں گے؟

ہمیں موصول ہونے والی شکایت میں اکثر صارفین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ آئی سی اے اور جی ڈی آر ایف اے کے اپروول کی آڑ میں دھوکہ کیا جاتا ہے۔ انہیں جعلی اجازت نامہ بنائے جاتے ہیں اور جب وہ امارات میں اترتے ہیں تو انہیں ایئرپورٹ پر سے واپس لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات اور دبئی میں قانون پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔

یہ ٹریول اینجٹ مبینہ طور پر اوورسیز پاکستانیوں جن کا آی سی اے اور جی ڈی آر ایف اے کا آپروول منفی ہوتا ہے ان سے بھاری رقم لے کر انہیں بتاتے ہیں کہ آپ کا اپررول مثبت بنا دیا گیا ہے لیکن متحدہ عرب امارت پہنچ کر انہیں دوبارہ وطب واپس لوٹنے ہوتا ہے کیونکہ ان کو جو اجازت نامہ بنا کر دیا گیا ہوتا ہے وہ جعلی ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات میں آنے کیلئے ویلڈ ویزہ ہونے کے بعد جی ڈی آر ایف اے اور دبئی کیلئے آئی سی اے کا اپروول لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ اگر کسی بھی شخص کا یہ آپروول نیگیٹیو ہے تو وہ کسی صورت متحدہ عرب امارت میں داخل نہیں ہو سکتا،

دوسری طرف کچھ مسافروں کا کہنا ہے کہ ان سے کورونا ٹیسٹ کی آر میں من چاہی فیس لی جاتی ہے اور کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق کورونا ٹیسٹ کئے جعلی رپورٹس بھی بنا کر دیئے جاتے ہیں جس میں مسافر سے رقم تو پوری لی جاتی ہے لیکن انہیں جعلی رپورٹ تھمائی جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button