پاکستانی خبریں

سیلاب کا پانی تو ایک مہینے میں نیچے آجائے گا، میں انتخابات ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، عمران خان کی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو

خلیج اردو
عاطف خان خٹک
اسلام آباد : پاکستان کے شہر اقتدار کی عدالت عالیہ نےعمران خان توہین عدالت کیس میں عمران خان کا جواب غیرتسلی بخش قرار دے دیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے ذہن میں تھا کہ جو 12 اکتوبر کو ہوا وہ دوبارہ نہ ہو۔ ذاتی طورپرآپ کے بیان سے افسوس ہوا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی۔چیئرمین پی ٹی آئی کو مخاطب کرکے چیف جسٹس نے کہا گزار وقت اور زبان سے کہی ہوئی بات واپس نہیں آتی، میں توقع کر رہا تھا کہ غلطی کا احساس ہوگا۔ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں تو اس کو کچھ کہتے سوچنا چاہیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ مجھے کبھی فلیٹ دلا دیا گیا کبھی تصویر ایک معزز جج کے ساتھ وائرل کردی گئی، جو سوشل میڈیا پر ہورہا ہے وہ ہم پر کوئی اثر نہیں کرتا لیکن ہم توہین عدالت کی کاروائی کوغلط استعمال نہیں ہونے دیں گے نا کریں گے۔

کیس کے تحریری حکم نامے میں عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پر تنقید کو ویلکم کرتے ہیں لیکن جو جواب آپ نے جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا آپ کا جواب پڑھ کر اب یہ پروسیڈنگ آگے بڑھیں گی عدالت نے تین معاونین مقرر کرتے ہوئے سماعت 8 ستمبر تک ملتوی دی۔

عدالت کے باہر صحافیوں نے عمران خان پر سوالات کو بوچھاڑ کردی لیکن عمران خان مسکراتے رہے اور کسی سوال کا جواب نہ دیا۔

غیر رسمی گفتگو میں چیئرمین پی ٹی آئی نے انکشاف کیا کہ زیبا چوہدری کا پتہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر ہیں بولے ملک میں الیکشن دیکھ رہا ہوں کیونکہ سیلابی پانی تو ایک ماہ میں نیچے آ جائے گا۔

مسٹر خان کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود میں سیکورٹی کافی الرٹ تھی جس پر ان کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہی کیوں اتنی سکیورٹی لگائی گئی ہم نے تو پہلے اتنی سکیورٹی نہیں دیکھی ہم نے تو ورکروں کو بھی نہیں کہا آنے کا راستے بند کرانے کی سمجھ نہیں آئی کہ اتنا خوف کیوں ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ جو بیان آپ نے دیا تھا کہ میں بڑا خوف ناک ہوں کہیں اس وجہ سے تو انتظامات نہیں کیے جس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ یہ جملہ میں نے صحافی کے تنگ کرنے پر کہا تھا کہ میں بڑا خوف ناک ہوں۔

باحثیت جماعت پی ٹی آئی نے عمران خان سے عدالت کے معافی سے متعلق مطالبے کو دبے الفاظ میں مسترد کر دیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ میری نظر میں معافی مانگنے یا نہ مانگنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مسٹر چوہدری نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اگر عدالت واقعی نظام میں بہتری لانا چاہتی ہے تو شہباز گل، جمیل فاروقی اور حلیم عادل شیخ کے حراستی تشدد کی انکوائری شروع کرے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ مذکورہ انکوائری کا حقیقی اثر پڑے گا اور عدالتوں کا احترام بڑھے گا۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button