معلومات

کیا موبائل فون چپکے سے ہماری باتیں سنتا ہے؟ حیرت انگیز انکشاف

خلیج اردو: کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کسی دوست سے کسی چیز کے بارے میں بات کر رہے ہوں اور کچھ ہی دیر بعد اسی چیز کا اشتہار آپ کو موبائل فون استعمال کرتے ہوئے نظر آئے؟ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اسمارٹ فونز ہماری ساری گفتگو تو نہیں سنتے؟ آئیے پتہ چلاتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ آپ کو ان ہی مصنوعات کے اشتہارات نظر آئیں جن میں آپ دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا فون آپ کی گفتگو سنتا ہے، کیونکہ اسے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کوئی مخصوص اشتہار دکھانے کے لیے جو معلومات درکار ہوتی ہیں، بہت حد تک امکان ہے کہ وہ آپ پہلے ہی سے اس پلیٹ فارم کو دے چکے ہوں۔

دراصل ہم اپنے فونز استعمال کرتے ہوئے مختلف ویب سائٹس اور ایپس کو کئی قسم کی معلومات دیتے ہیں، مثال کے طور پر “کوکیز” کو قبول کرکے ہم انہیں اجازت دیتے ہیں کہ ہماری آن لائن سرگرمیوں کو ٹریک کریں۔

ان میں پہلے فرسٹ پارٹی کوکیز آتی ہیں جو ویب سائٹ مختلف چیزیں “یاد” رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مثلاً لاگ اِن کوکیز آپ کی لاگ اِن تفصیلات کو محفوظ کرتی ہیں تاکہ آپ کو ہر مرتبہ لاگ اِن ہونے کے لیے معلومات داخل نہ کرنی پڑیں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

پھر “تھرڈ پارٹی کوکیز” ہیں، جو دراصل اس ڈومین کی ہوتی ہیں جو آپ کی دیکھی گئی ویب سائٹ سے باہر کا ہوتا ہے۔ تھرڈ پارٹی زیادہ تر مارکیٹنگ کمپنیاں ہی ہوتی ہیں جو فرسٹ پارٹی یعنی آپ کی دیکھی گئی ویب سائٹ یا ایپ کے ساتھ معاہدہ رکھتی ہیں جس کے تحت مارکیٹنگ کمپنی اشتہارات لگائے گی اور اسے آپ کا ڈیٹا حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔

یوں یہ کمپنیاں آپ کا پتہ چلانا شروع کر دی ہیں، آپ کے معمولات، خواہشات اور ضروریات سب کچھ، یہ کمپنیاں مصنوعات کی مقبولیت کے اندازہ لگانا چاہتی ہیں اور یہ بھی کہ صارفین کی عمر، صنف، قد، وزن، پیشہ اور مشاغل کس طرح مصنوعات کی مقبولیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس قسم کی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو استعمال کرتے ہوئے ایڈورٹائزنگ ادارے اپنے اشتہارات دکھانے کے الگورتھمز بہتر بناتے ہیں، اور یوں صارفین کو اشتہارات نظر آتے ہیں۔

آجکل تو اس حوالے سے مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی شروع ہو گیا ہے جو ڈیٹا پر بہت سارا کام خود ہی کر دیتا ہے۔ یہ آپ کی سرگرمیوں سے ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ آپ کو کس قسم کا اشتہار دکھانا چاہیے۔ مثلاً آپ نے کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کوئی پوسٹ دیکھی یا “لائیک” کی تو یہ ریکارڈ کر لیتا ہے کہ آپ کو کس قسم کا مواد پسند ہے۔

یا پھر آپ کسی دوست یا عزیز کی پوسٹس کو لائیک کرتے ہیں تو بھی یہ آپ کی ترجیحات اور ذاتی دلچسپی نوٹ کر لیتا ہے۔ اگر آپ اسمارٹ فونز کے حوالے سے پوسٹس کو بار بار لائیک کریں تو پھر آپ کو ویسے ہی اشتہارات دکھائے جائیں گے جو اسمارٹ فونز اور ان سے متعلقہ مصنوعات کے ہوں گے۔

درحقیقت، مصنوعی ذہانت کے حامل یہ الگورتھمز مارکیٹنگ اداروں کو بہت سا ڈیٹا دیتے ہیں جو پورا سوشل نیٹ ورک بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کسی بھی پلیٹ فارم پر موجود شخص کی مصروفیات اور پسند کے اعتبار سے پروفائل بنایا جاتا ہے۔

آپ کو نہ صرف اپنے ڈیٹا بلکہ اسی پلیٹ فارم پر موجود اپنے دوستوں اور عزیزوں کی بنیاد پر بھی اشتہار دکھائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ فیس بک آپ کو کسی ایسی چیز کا اشتہار دکھائے کہ جو حال ہی میں آپ کے دوست نے خریدی ہو۔ یہ جاننے کے لیے اسے دونوں کی گفتگو ” سننے”کی بھی ضرورت نہیں۔

ہو سکتا ہے آپ کو ڈیٹا کی بنیاد پر اشتہارات پر اعتراض نہ ہو بلکہ یہ آپ کو بہتر لگتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر جو مصنوعات آپ کو پیش کی جاتی ہیں وہ آپ کے امکانات کو محدود کر سکتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آپ کا ذوق اور پسند کا دائرہ محدود ہو کر رہ جائے۔

یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب صارفین کو بھی اپنے ڈیٹا کے حوالے سے تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ اس لیے چند باتیں ذہن میں رکھیں۔ اگر آپ کو کسی ایپ پر شبہ ہو تو اسے صرف وہی اجازتیں دیں جو دینا چاہتے ہیں۔

مثلاً واٹس ایپ کو تو کیمرے اور مائیکرو فون کی لازمی ضرورت ہوگی کیونکہ اس کے بغیر یہ وڈیو اور آڈیو کالز نہیں کر پائے گا لیکن تمام ایپس اور سروسز کو اس کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس لیے اجازت ایپ پر ایک نظر ضرور ڈالیں۔

اس کے علاوہ کسی ویب سائٹ یا ایپ کی جانب سے کوئی مخصوص اجازت مانگے جانے اور اسے کوکیز کی اجازت دینے سے پہلے دو مرتبہ سوچیں۔ جہاں تک ممکنہ ہو ویب سائٹس پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے استعمال سے گریز کریں۔

نئے اکاؤنٹس بنانے کے لیے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال نہ کریں بلکہ ای میل کے ذریعے لاگ اِن ہونے کا آپشن بہتر ہے بلکہ بہترین یہ ہے کہ ایک ثانوی ای میل ایڈریس بنائے جس سے آپ یہ تمام سرگرمیاں کریں۔

اگر آپ پرائیویسی کے معاملے میں حساس ہیں تو اپنی ڈیوائس پر ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک (وی پی این) انسٹال کر لیں۔ اس سے آپ کا آئی پی ایڈریس چھپ جائے گا اور آپ کی آن لائں سرگرمیاں بھی انکرپٹ ہوجائیں گی۔

ویسے اگر آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ آپ کا فون آپ کی باتیں سنتا ہے تو ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھیں۔ اپنے فون کی سیٹنگز میں جائیں اور تمام ایپس کی مائیکرو فون تک رسائی بند کر دیں، پھر ایک پروڈکٹ کا انتخاب کریں، جسے آپ نے کبھی سرچ نہ کیا ہو اور اس بارے میں کسی دوست یا گھر پر بات کریں۔

چند مرتبہ یہ عمل دہرائیں۔ اب اگر آپ کو کچھ دنوں میں اس پروڈکٹ کا اشتہار نظر نہیں آئے تو اس کا مطلب ہے کہ واقعی آپ کا فون آپ کی باتیں نہیں “سُن” رہا ۔ اس کے پاس آپ کے “دماغ میں گھسنے” کے اور بہت سے طریقے ہیں

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button