معلوماتپاکستانی خبریں

کشمیریوں کے لئے حق خود ارادیت کی آواز بلند کرنے والی سب سے توانا آواز خاموش ہوگئی

سید علی گیلانی اپنی نوعیت کے واحد کشمیری رہنما تھے جن کی اخلاص اور دیانت پر کسی کو شک نہ تھا،انہوں نے جوانی سے لے کر بڑھاپے تک اپنی زندگی کا ہر لمحہ کشمیر کی آزادی کے لئے وقف کئے رکھا

سید علی گیلانی
تحریر۔پیر فاروق بہاوالحق شاہ۔
کشمیریوں کے لئے حق خود ارادیت کی آواز بلند کرنے والی سب سے توانا آواز خاموش ہوگئی۔ سید علی گیلانی اپنی نوعیت کے واحد کشمیری رہنما تھے جن کی اخلاص اور دیانت پر کسی کو شک نہ تھا،انہوں نے جوانی سے لے کر بڑھاپے تک اپنی زندگی کا ہر لمحہ کشمیر کی آزادی کے لئے وقف کئے رکھا،اپ آزادی کشمیر کی جدوجہد کے لئے ہوئے واضح اور دو ٹوک مؤقف رکھتے تھے،دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے موقف سے ہٹا نہ سکتی تھی،وہ مظلوم کشمیریوں کا سہارا تھے اور انکے جزبات کی حقیقی ترجمانی کرتے تھے۔سید علی گیلانی کو کشمیر سے عشق تھا،اور وہ عشق کا برسرعام اظہار کیا کرتے تھے۔

وہ کشمیر کے ان رہنماؤں میں سے ایک تھے جن کو دنیا کی کوئی طاقت خرید نہ سکی،آپ ایک وسیع المطالعہ، قابل اور دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے رہنما تھے۔جوانی میں ان کی آواز بہت توانا تھی لیکن بڑھاپے میں یہ للکار اور بھی بلند ہوگئی تھی۔ان کی تقریر سن کر بوڑھوں کا خون بھی جوش مارنے لگتا تھا اور جوانوں میں بجلی سی کوندجاتی تھی۔انہوں نے اپنی طویل زندگی میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کیا،لیکن کسی بھی حالت میں وہ آزادی کشمیر سے کم چیز پر راضی نہ ہوئے۔دنیا میں ہر جگہ چلنے والی آزادی کی تحریکوں سے ان کے روابط تھے۔اور تمام تحریکیں ان سے توانائی حاصل کرتی تھیں۔

ان کا تعلق ایک مخصوص مذہبی جماعت کے ساتھ تھا لیکن اس کے باوجود تمام جماعتوں کے رہنما ان سے محبت کرتے تھے تے،ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں تاہم ان سے محبت کرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے،لیکن ایک نکتے پر ان کے مخالف اور موافق یکساں طور پر متفق ہیں کہ وہ تحریک آزادی کی سب سے زیادہ موثر آواز تھے۔سید علی گیلانی کی ساری زندگی کی جدوجہد سے عبارت تھء ان کی ساری جدوجہد کا مرکزی نقطہ کشمیر کی آزادی تھی،وہ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے وہ جوانوں کے خون گرمایا کرتے تھے،لیکن جو پاکستانی حکمران ان کے نظریے کے خلاف بات کرتا اس کی وہ ڈٹ کر مخالفت کرتے۔

ان کی کریڈیبلٹی کا یہ عالم تھا کہ جنرل مشرف جیسا حکمران بھی ان کے سامنے ان کے موقف کی مخالفت نہ کرسکا۔البتہ ان کی عدم موجودگی میں ضرور مخالفت کی۔نئی دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں ایک عشائیے کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں بوڑھے علی گیلانی نے جنرل مشرف کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کہا تھا مشرف صاحب کشمیر کے معاملے پر میں آپ کی رائے سے متفق نہیں۔یہ سنتے ہی ہال میں سناٹا چھا گیا۔یہ سید علی گیلانی ہی تھے جنہوں نے کشمیر کے موقف پر مشرف کی بھی راہنمائی کی۔بھارتی حکمران ہمیشہ سید علی گیلانی سے خائف ہی رہے۔بھارت میں جس جماعت کی حکومت کی تشکیل پاتی کشمیر کے معاملے پر وہ سید علی گیلانی کو نظر انداز نہ کر سکتی ہے۔سید علی گیلانی بھی ہر بھارتی حکمران کے پس منظر سے خوب واقف تھے،وہ بھارتی سیاسی جماعتوں کے داؤ پیچ سے بھی آگاہ تھے،اسی لیے وہ کسی حکمران کے چکمہ میں نہ آئے،ہر سیاسی جماعت کا دور اقتدارِ آپ کے لیے دور ابتلاء ثابت ہوا۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سید علی گیلانی کا انتقال بدھ کے روز سرینگر میں ہوا۔ ان کا انتقال نظر بندی کے دوران رات 10 بجے ہوا۔ حریت رہنما عبدالحمید لون نے سید علی گیلانی کے انتقال کی تصدیق کردی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ایک ٹویٹ میں سید علی رضا گیلانی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ایک کشمیری صحافی کے مطابق سید علی گیلانی کے انتقال کی خبر ملتے ہی مقبوضہ وادی میں قابض بھارتی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوگیا ہے اور ممکنہ طور پر کرفیو کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ سید علی گیلانی کی خواہش تھی کہ انہیں سرینگر کے شہدا قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے تاہم کشمیری صحافی کے مطابق ان کی ان کے رہائش گاہ حیدر پورہ کے قریبی قبرستان میں تدفین کی جاسکتی ہے
خیال رہے کہ سید علی گیلانی کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی کشمیر کی آزادی کی جد وجہد میں گزار دی۔ وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کے جیتے جی ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی۔

ان کا یہ نعرہ ’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ تحریک آزادی کے متوالوں کے دلوں میں نئی روح پھونک دیتا تھا۔ سید علی گیلانی کشمیر کے وہ واحد لیڈر تھے جو تقسیمِ ہند سے قبل پیدا ہوئے۔ اب کشمیر کی تحریک آزادی کے جتنے بھی رہنما ہیں ان سب کی پیدائش 1947 کے بعد ہوئی ہے۔کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر پانچ دہائیوں تک چھائے رہنے والے بزرگ مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی کی وفات کے بعد بھارتی حکام نے سخت سکیورٹی میں ان کی تدفین کروا دی جس میں صرف چند قریبی رشتہ داروں کو شرکت کرنے کی اجازت دی گئی۔غیر ملکی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق وادی میں ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ حریت رہنما کی تدفین علی الصبح ہو گئی تھی تاہم کشمیر کے کئی حصوں سے لوگ اس میں شرکت کرنا چاہتے تھے تاہم انھیں وہاں تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔سرینگر کے شہری علاقوں میں ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے

ادھر حیدر پورہ میں سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر سخت سکیورٹی حصار قائم ہے۔ پولیس نے گذشتہ روز ہی کہہ دیا تھا کہ کورونا کی وبا کے باعث صرف قریبی رشتہ داروں کو ہی جنازے میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق علی گیلانی کے دو بیٹے، ان کی بیویاں اور بچے شامل ہوئے اور مرحوم کو حیدر پورہ میں ہی واقع ایک قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

اس سے قبل سوشل میڈیا پر سید علی گیلانی کے ترجمان عبداللہ گیلانی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکام مرحوم حریت رہنما کی میت غسل سے قبل ہی جبراً تدفین کے غرض سے لے گئے ہیں۔
اسی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ میت کو زبردستی لے جانے کے معاملے پر سید علی گیلانی کے اہل خانہ اور فوجی اہلکاروں میں کشیدگی بھی ہوئی۔

کشمیری رہنماؤں کی جانب سے حکام کے مبینہ ناروا سلوک پر احتجاج کی کال بھی دی گئی ہے تاہم انڈین حکام کی جانب سے کشیدگی سے بچنے کے لیے وادی میں کرفیو نافذ کیا گیا ہیسید علی گیلانی کشمیر کے بلند آہنگ ناقد تھے جنہوں نے کئی سال جیل میں یا نظربندی میں گزارے۔
وہ سرینگر کے شہدا قبرستان میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ حکام نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
اے ایف پی کے مطابق حیدر پورہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ حکام نے سوگ کے بڑے پیمانے پر بدامنی میں بدل جانے کے خوف سے یہ اقدام اٹھایا۔سید علی گیلانی کون تھے۔

سید علی گیلانی کے آباؤ اجداد مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔ وہ شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں ڈُورو گاوں کے ایک آسودہ حال گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے۔
تعلیمی مراحل۔

اپ نے بتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاں وہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر ہوکر لوٹے۔
سید علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔

کشمیر واپسی پر انھوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ شعر و سخن سے شغف اور حُسنِ خطابت کی وجہ سے بہت جلد جماعت کے اہم رہنما کے طور مشہور ہو گئے۔ انھوں نے 1977،1972 اور1987 میں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ مقامی اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے، تاہم 87 رُکنی ایوان میں جماعت کو چند سیٹیں ہی ملتی تھیں اس لیے اسمبلی کے اندر کوثر کردار تو ادا نہ کر سکے البتہ اسکے لیے ایک بھرپور صدا بلند کرتے رہیجد و جہد کے ماہ و سال 1987 میں سید علی گیلانی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی حامی کئی تنظیموں کے اتحاد مسلم متحدہ محاذ کی حمایت میں الیکشن لڑ کر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو تاریخی چیلنج پیش کیا، تاہم انتخابات میں ‘بدترین دھاندلیوں ‘ اور کانگریس کی حمایت سے فاروق عبداللہ اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے اور سید علی گیلانی سمیت محاذ کے بھی اُمیدواروں نے الیکشن جیت لیا۔

چند سال بعد جب کشمیریوں نے بھارت کے تسلط کے خلاف مسلح شورش جدوجہد شروع کی اوراس دوران محاذ کے ایک رُکن اسمبلی عبدالرزاق بچرو پُراسرار حالات میں مارے گئے تو گیلانی سمیت چاروں ارکان، اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہو گئے۔
ان کے ساتھ روشن خیال پیپلز کانفرنس کے رہنما عبدالغنی لون نے بھی استعفیٰ دیا اور دونوں نے تحریکِ آزادی کی حمایت کا اعلان کر دیا لیکن صرف دو سال کے اندر اندر کشمیر میں گورنر راج نافذ ہوا اور فاروق عبداللہ لندن میں مقیم ہوگئے۔

سید گیلانی نے مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی اور اسے کشمیریوں کی طرف سے ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ایک ردعمل قرار دیا۔ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔گیلانی جو کبھی نہ جھکا۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی آزمائشی دور سے گزر رہی تھی۔ ملک سربراہی پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھی اور امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی مخالف جنگ میں حلیف بنالیا تھا۔

اسی اثنا میں نئی دلی نے بھی حریت کانفرنس کی ’ماڈریٹ‘ قیادت کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ دونوں کی حکومتوں نے حریت قیادت کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار کیے لیکن ہر بار گیلانی ان مذاکرات کو ’فضول مشق‘ اور ’وقت گزاری‘ سے تعبیر کرتے رہے جس کی وجہ سے ان مذاکرات کو عوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔
مذاکرات کی مخالفت پر دلی میں اکثر حلقوں نے گیلانی کے اعتراض کو پاکستانی سوچ قرار دیا لیکن جب مشرف نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو سائڈ پر رکھ کر کشمیر کے حل کا چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تو سید علی گیلانی نے اس کی بھی مخالفت کی۔

نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے میں مشرف اور سید علی گیلانی کے درمیان 2005 میں ہونے والی ملاقات میں انھوں نے پرویز مشرف سے کہا کہ اُنھیں کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کے سیاسی مستقبل کا یکطرفہ فیصلہ لینے کا حق نہیں۔
گیلانی کی رخصت کے بعد مشرف نے ٹھیٹ پنجابی میں اپنے ساتھیوں سے کہا: ’باباجی نُو گل سمجھ نی آندی، انھاں نوں کی پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کی ہوندا ہے {باباجی کو بات سمجھ نہیں آتی، انھیں کیا پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کسے کہتے ہیں)۔‘
سید علی گیلانی تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے ایک عظیم تاریخی ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں۔آنے والے دور میں شاید علی گیلانی جیسا مزاحمت کا استعارا بھارتی حکومت کے سامنے تو کھڑا نہ ہو سکے تاہم مستقبل میں جب بھی کوئی مزاحمت کار بھارتی مظالم کے سامنے کھڑا ہوگا تو سید علی گیلانی کا مضبوط نظریاتی ورثہ اس کی پشت پر ہوگا۔

 

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button