ٹپس

رش میں پھنسے یہ ڈیلوری ورکرز کیسے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں کہ انہیں روزہ راستے میں کھولنا پڑتا ہے؟ آپ کو ایک نوجوان پاکستانی سے ملواتے ہیں

خلیج اردو
دبئی: گاڑی پر سے گرزتے ہوئے ، گلیوں کے درمیان گھومتے ہوئے، موٹرسائیکل ڈلیوری ورکرز دن بھر وقت کی کمی کے شکار معاملات سے نمٹ رہے ہوتے ہیں اور مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ تازہ کھانا ان افراد تک پہنچایا جائے جنہوں آرڈر کیا ہے۔

رمضان میں جب افطار کا آرڈر ملنے کے بعد صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی اور یہ ڈیلوری ورکرز جو دن بھر روزہ رکھتے ہیں وہ صارفین کے کھانے کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔

نئے والد بننے والے محمد انصار متحدہ عرب امارات کے ان ہزاروں رائیڈرز میں شامل ہیں جو اپنی کمپنی کی ایپ پر داخلے کے 15 منٹ کے اندر آرڈر پورا کرنے کے لیے مصروف سڑکوں سے گزرتے ہوئے یقینی بناتے ہیں کہ وہ آرڈر کو باہم بروقت پہنچائے۔

انصار کا کہنا ہے کہ وقت بہت اہمیت کا حامل ہے اور زیادہ تر رمضان میں چونکہ ان میں سے بہت سے آرڈر افطار کے کھانے کے لیے ہی ہوتے ہیں اور ان میں تاخیر نہیں کی جا سکتی تو ہمارے لیے ہر سیکنڈ اہمیت رکھتا ہے۔

لیکن انصار افطار کہاں کرتا ہے؟

پاکستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نوجوان کا کہنا ہے کہ رمضان افطار کرنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ میں غروب آفتاب کے وقت کہاں ہوتا ہوں۔

اگر میں کام پر ہوں تو میں سڑک کے کنارے ایک کیفے ٹیریا میں رک کر جلدی سے کھانا کھاتا ہوں۔ پھر میں قریبی مسجد جاتا ہوں اور مغرب کی نماز پڑھتا ہوں۔ بصورت دیگر میں اپنے دس ساتھیوں کے ساتھ افطار کرتا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم باری باری پکوڑے بناتے ہیں اور دیگر روایتی افطار کی تیاریاں خود بناتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی ماہر باورچی نہیں ہے جس کی وجہ سے نتیجہ اکثر توقعات سے دور ہوتا ہے لیکن جو کچھ ہمارے پاس ہے اس کے لیے ہم اللہ کے شکر گزار رہتے ہیں۔

دبئی کی کریم کمپنی میں کام کرنے والے انصار کا کہنا ہے کہ ہمارے درمیان بہت زیادہ دوستی ہے جو ہمارے کھانے میں کسی بھی چیز کی کمی کو پورا کرتی ہے۔

کرونا عالمی وبا کے دوران صارف دوست ایپلیکیشن کی آمد نے آن لائن فوڈ ڈیلیوری کمپنیوں اور روزگار کی تلاش میں لوگوں کے ایک بڑے حصے کے لیے کامیابی کا ایک بہترین ذریعہ تیار کیا ہے۔ ۔

انصار کا تعلق لاہور سے ہے اور ابھی اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی ہے ، ماہانا تین ہزار درہم کماتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں اپنی ملازمت سے خوش ہوں کیونکہ یہ میرے خاندان اور میری مدد کرتا ہے۔ میں روزانہ تقریباً 13 گھنٹے کام کرتا ہوں اور 10-15 آرڈرز کے درمیان کہیں بھی ڈیلیور کرتا ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ وزے کی حالت میں شدید گرمی میں گھنٹوں موٹر سائیکل چلانا جسمانی طور پر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ ہیلمٹ اور حفاظتی کٹ بھی ہمیں گھٹن اور حبس کا احساس دلاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اللہ کا شکر ہے کہ گرمی اب بھی قابل برداشت ہے۔ لیکن صورت حال جلد ہی کسی بھی وقت بدل سکتی ہے جہاں پھر ہمارے لیے اصل چیلنج شروع ہوجائے گا۔

Source: Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button