ٹپس

کورونا وائرس : انسان کی موت کا پتہ چلانے والے کمپیوٹر سسٹم کی ایجاد ، آرٹیفشل انٹلی جنس کی مدد سے کیا کچھ ممکن ہے؟

خلیج اردو
09 فروری 2021
دبئی : مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹلی جنس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ مستقبل میں انسانوں کا بیشتر کام سنبھالے گا۔ جیسے پہلے مختلف مشینوں نے انسانوں کی جگہ لی ، اب یہ کام آرٹیفیشل انٹلیجنس دے گی کہ موت کا پتہ لگائے گی۔
ہم جانتے ہیں کہ موت برحق ہے اور انسان کے مرنے کا جو دن مقرر ہے ، اس کا علم رب کعبہ کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا لیکن بیماری کی بنا پر انسان کے زندہ رہنے یا مرنے کے امکان کو خاطر میں رکھتے ہوئے میڈیکل سائنسز سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ایسے میں کورونا وبا کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ایک مریض کے زندہ بچنے یا مرنے کے امکانات معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ مریض کا ڈیٹا استعمال کرکے آرٹیفشل انٹلی جنس سے تجزیہ کرناممکن ہوگیا ہے اور اس کے نتائج نوے فیصد کیسز میں درست سامنے آتے ہیں۔

باڈی ماس انڈیکس یا بی ایم آئی) ، جنس ، اور ہائی بلڈ پریشر سب سے زیادہ اہم فیکٹرز مانے جاتے ہیں اور اسی ڈیٹا کے طور پر استعمال کرکے مفید پایا گیا ہے۔ تحقیق سے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کی پیش گوئی بھی کی جاسکتی ہے ،کن مریضوں کو سانس لینے کیلئے آسکیجن ماسک کی ضرورت ہوگی ، کونسے مریض کو پہلے ویکسینیشن دی جائے وغیر یہ سب معلوم کیا جا سکتا ہے اور اسے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ نیچر کے سائنٹفک رپورٹس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

مصنوعی ذہانت سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ تر کون لوگ مر سکتے ہیں اور یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جو دنیا بھر میں ویکسینشن کا عمل جاری ہے جہاں آبادی زیادہ اور ویکسین کم ہیں ، ان میں کس کو ترجیح دی جائے جب ویکسین لگانے کا عمل ہورہا ہو۔

اس تحقیق کا تجربے کے بعد نتیجہ یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے محققین کی جانب سے شائع کردہ ایک نئی تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد سے محققین ایسے کمپیوٹر ماڈل تیار کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں جو پیش گوئی کرسکتے ہوں کہ بیماری کی تاریخ اور صحت کے اعداد و شمار کی بنیاد پر عوام کورونا سے کتنی بری طرح متاثر ہوں گے۔

ڈنمارک کے دارلحکومت اور مضافات سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اس تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت 90 فیصد تک یقینی طور پر یہ طے کرسکتی ہے کہ جو شخص ابھی کورونا کا شکار نہیں ہوا ہے ، اگر وہ اس مرض کا شکار ہو جائے تو کیا وہ مر جائے گا یا اس کے بچنے کے امکانات ہوں گے ۔ یہ بھی اس کمپیوٹر کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اگر مذکوروہ شخص اسپتال میں داخل ہو گیا تو اسے آکسیجن سلنڈر کی ضرورت ہو گی یا نہیں اور یہ نتائج 80 فیصد درست ہیں۔

یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر میڈیسن نیلسن کا کہنا ہے کہ کورونا کی پہلی خطرناک لہر کے دوران ہم نے ایک ایسے ماڈل پر کام کرنا شروع کیا جس سے آسان بنایا جا سکے کہ اعدادوشمار کی بنیاد پر اور اندازے پر تعین کیا جا سکے کہ اسپتالوں کی اتعداد اور ضرورت کیا ہے اور یہاں داخل ہونے والے کتنے مریضوں کو آکسیجن ماسک کی ضرورت ہوگی کیونکہ خدشہ یہ تھا کہ اسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے مریضوں کیلئے مناسب انتظامات نہیں ۔

ہائی بلڈ پریشر والے بزرگ زیادہ خطرناک ہیں۔
تحقیق کے دوران محققین نے 3944 افراد کے اعدادوشمار ایک کمپیوٹر پروگرام میں فیڈ کیے اور انہوں نے کوشش کی کہ پروگرام سے پہنچان ہو سکے اور تجزیہ کیا جا سکے کہ پیشگی اوربعد میں دونوں صورتوں میں کورونا کے خلاف ان مریضوں کی جانچ پڑتال بھی کی گئی ہے۔ہمارے نتائج نے بتایا کہ عمر اور بی ایم آئی وہ دو بنیاد پیرامیٹرز تھے جن سے معلوم ہو پاسکتا ہے کہ ایک شخص کو کورونا وائرس لاحق ہو گا یا نہیں ، کے امکانات کیا ہیں۔ یہ بھی سامنے آیا کہ اگر مریض مرد ہے تو اس کے مرنے کے امکانات کافی ہیں۔

نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں عمر اور بی ایم آئی سب سے زیادہ فیصلہ کن پیرامیٹرز ہیں جو کسی شخص کے کورونا وائرس سے متائثر ہونے کے امکانات ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسے افراد میں سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے موت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اگر آپ مرد ہیں تو بلڈ پریشر یا اعصابی بیماری کے امکانات زیادہ ہونے کی وجہ سے امکانات زیادہ ہیں کہ آپ کی موت واقع ہوگی۔

پروفیسر نیلسن کا کہنا ہے کہ ان علامات میں سے ایک یا اس سی زیادہ رکھنے والوں کے بارے میں ہم نے محسوس کیا کہ انہیں قطار میں کھڑا کر دینا درست نہیں اور ویکسینین کے دوران ان کے ممکنہ طورپر کورونا سے متائثر ہونے کے زیادہ امکانات کی وجہ سے دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہیں ۔ چونکہ ان لوگوں کے وائرس سے متائثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کے ساتھ کسی اور کی انٹرکشن اس شخص کو متائثر کر سکتی ہے۔

میڈس نیلسن کا کہنا ہے کہ ہمارا بنیادی مقصد اس بات کیلئے کوشش کرنا ہے کہ معلوم کیا جا سکے کہ اس شخص کو آکسیجن ماسک کی ضرورت ہوگی یا نہیں ۔ اس سے ضروری سپلائی کو برقرار یا یقینی رکھا جا سکتا ہے اور ہنگامی صورت حال کیلئے ہمیں تیار رہنے میں آسانی ہوتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کمپیوٹر کبھی بھی انسانوں کے متبادل نہیں ہو سکتے لیکن یہ انسانوں کے کام کو آسان اور غلطی کے امکان کو کم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کامیابی کی صورت میں خطے کے دیگر ممالک کی مشکلیں آسان کر سکتے ہیں۔

Source : Gulf News

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button