متحدہ عرب امارات

الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے،انتخابات کے التوا سے متعلق کیس میں چیف جسٹس کے ریمارکس

خلیج اردو

اسلام آباد: پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کیسربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پنجاب اور کے پی انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی،،، دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز کے ریمارکس پر وضاحت تے ہوئے کہا میں اپنے تفصیلی فیصلے پر قائم ہوں. فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے. چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کیلیے ججزکی کمیٹی بنائی جائے. فیصلے کے دوسرے حصہ میں ہم 4 ججزنے ازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کی ہیں. چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے جسے چیف جسٹس نے جاری ہی نہیں کیا. جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے کیسے شیڈول جاری کیا؟ فل کورٹ کیوں، وہی سات ججز بینچ میں بیھٹنے چاہیے.

 

 

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن نوے روز میں ہونا ہیں تاہم انتخابات کیلئے آئین میں سازگار ماحول بھی ہونا ضروری ہے. الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا. جسٹس منیب اختر نے کہا کیا الیکشن کمیشن نے مختصر حکمنامہ پڑھا ہے اسمیں کہا لکھا ہے کہ فیصلہ تین چار کا ہے. یکم مارچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا فیصلہ تین چار کا ہے. اختلاف رائے جج کا حق ہے تاہم اقلیت کس قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے. کھلی عدالت میں پانچ ججز نے مقدما سنا اور فیصلہ سنایا. جسٹس جمال مندوخیل بولے اختلافی نوٹ کے مختصر حکمنامہ میں لکھا ہے جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں. کیا دونوں معزز ججز کا فیصلہ ہوا میں تحلیل ہوا؟ چیف جسٹس نے کہا جو معاملہ ہمارے چیمبر کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں.

 

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ فوج، رینجرز اور ایف سی کو سیکورٹی کیلئے خط لکھا جسمیں فوج نے جوان دینے سے انکار کیا. ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس بھی دیں جس میں بھکر میانوالی میں ٹی ٹی پی سندھو دیش سمیت مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی عدالت کہے تو وہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے. جسٹس منیب اختر نے کہا کیا آپ کا فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے دوسری طرف کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے. چیف جسٹس نے استفسار کیا پورے ملک میں انتخابات ہو تو کتنا خرچہ ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہو تو 47 ارب روپے خرچ ہونگے جبکہ الگ الگ ہوں تو بیس ارب اضافی خرچ ہوگا.

 

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آئین میں واضح ہے کہ پولنگ کی تاریخ کون دےگا. گورنر اور صدر کی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کرسکتا ہے. کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آئین سے بالاتر ہے. جسٹس امین الدین خان نے کہا الیکشن کمیشن کو جب معلوم تھا تیس اپریل کو انتخابات نہیں ہوسکے تو تاریخ ہی تجویز کیوں کی اور صدر کو معاملے سے آگاہ کیوں نہیں کیا. جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے دو اسمبلیاں تحلیل ہیں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے. اگر ادارے معاونت فراہم کریں تو الیکشن کروائیں گے. وکیل الیکشن کمیشن نے کہا فنڈز اور اداروں سے معاونت ملے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کیلئے تیار ہیں. الیکشن کیمشن کے وکیل کے دلائل مکمل، عدالت نے کیس کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button