متحدہ عرب امارات

رواداری اور ہم آہنگی کی بہترین مثال : متحدہ عرب امارات میں ایک دستر خوان پر مسلم ، عیسائی اور ہندو افطار کرتے ہیں

خلیج اردو
شارجہ : رمضان دوسروں کے ساتھ خوشیاں اور خیر بانٹنے کا مہینہ ہے۔ اسے کا بہترین مظاہرہ دیکھنا ہو تو شارجہ کے سیلون سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ہندوستان اور پاکستان کے مسلمان، ایک عیسائی اور ایک ہندو ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور ہر روز افطار کا کھانا آپسمیں بانٹتے ہیں۔

افطار کے دوران پاکستان سے علی حیدر اور بھارت سے نفیس احمد اور رخشاد جابر علی کے ساتھ ان کے مسیحی ساتھی روحیل غوری اور بھارت سے ہندو دوست دانش ہنس بھی شامل ہیں۔

اس عمل کے دوران وہ صرف اپنا کھانا ہی نہیں بانٹتے بلکہ احساسات اور خوشی کے لمحات جو انہوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارے ہیں۔

مختلف مذاہب سے جڑے یہ ورکرز افطار کرتے ہیں اور مغرب کی نماز دکان کے اندر ادا کرتے ہیں کیونکہ افطار کے بعد خاص طور پر ہفتے کے آخر میں گاہک آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

نفیس احمد کا کہنا ہے کہ یہاں رمضان کا سب سے اچھا حصہ یہ ہے کہ ہم ساتھیوں کے ساتھ مل کر افطار کرتے ہیں۔ ایک پاکستانی خاندان، جو اسی عمارت میں رہتا ہے جو ہمیں افطار کے لیے ہر روز بریانی فراہم کرتا ہے۔ کچھ دوسرے سخی لوگ بھی اپنے کھانے ہمارے ساتھ بانٹتے ہیں۔

پانچ سالوں سے یو اے ای میں مقیم نفیس احمد کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ افطار کرنا کسی حد تک اہل خانہ کے ساتھ افطار کرنے کا احساس دلاتا ہے۔ پھر ہم دکان پر مغرب کی نماز پڑھتے ہیں کیونکہ افطار کے بعد گاہک آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

علی حیدر جو کہ دو سال سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں، ہر سال دکان پر افطار کرتے ہیں۔

حیدر کا کہنا ہے کہ دوسری دکانوں کے لڑکے بھی افطار کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہوتے ہیں، اس لیے ہم تقریباً پانچ ہندوستانی اور پاکستانی ساتھی ہیں جو افطار کے دوران کھانا بانٹتے ہیں۔ چونکہ ہم پچھلے کچھ سالوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں، اس لیے ہم نے ایک اچھی سمجھ پیدا کی ہے۔ لہذا ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندوز ہوں۔

بھارتی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے دانش ہنس کہتے ہیں کہ مسلمان دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا کر بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ ایک مختلف اور بہت اچھا تجربہ ہے جو مجھے ہندوستان میں نہیں ملا تھا۔

رخشاد نے پچھلے سات مہینوں سے اپنے خاندان کو رقم نہیں بھیجی ہے کیونکہ وہ کچھ جرمانے کی وجہ سے اپنی آمدنی کھو بیٹھا ہے۔

حیدر کا کہنا ہے ہمارے پاس دن میں زیادہ کام نہیں ہوتا۔ افطار کے بعد ہی گاہک سیلون میں آنا شروع کر دیتے ہیں۔ چونکہ یہ کمیشن پر مبنی نظام ہے، اس لیے ہم کچھ مہینوں میں معقول آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن پھر ایسے مہینے ہوتے ہیں جو ہم کما ہی نہیں پاتے، اس لیے اپنے گھر والوں کو پیسے نہیں بھیج سکتے۔

Source: Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button