متحدہ عرب امارات

سائبر کرائم کا سخت قانون جو آپ کو کام کی جگہ سے متعلق خفیہ معلومات افشاں کرنے سے روکتا ہے، خلاف ورزی پر دس دلاکھ درہم جرمانہ ہوگا

خلیج اردو

دبئی: اگر آپ متحدہ عرب امارات میں موجود کسی کمپنی یا ادارے میں ملازم ہیں اور آپ کو ایسی معلومات تک رسائی حاصل ہوگئی ہے جو خفیہ ہے، تو آپ پر لازمی ہے کہ اسے رازداری میں رکھیں۔

 

اگر یہ خفیہ معلومات آپ نے کسی سے شیئر کیں تو یہ کافی خطرناک کام ہے اور اس پر آپ قانون کی گرفت میں آجائیں گے۔ آپ کو سنگین قانونی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 

یو اے ای کے پبلک پراسیکیوشن نے صارفین کو سائبر کرائمز کے نئے قانون کے آرٹیکل 45 سے آگاہی پوسٹ کیا ہے۔ وفاقی فرمان نمبر 34 جو 2021 کا ہے، میں کسی کمپنی کی میں ملازمت کے دوران خفیہ معلومات افشاء کرنے پر جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔

 

نئے سائبر کرائم قانون کے مطابق ملازمت کے دوران خفیہ معلومات شیئر کرنے کی سزا چھ ماہ قید یا درہم 200,000 سے لے کر دس لاکھ درہم تک جرمانہ ہے۔

 

مذکورہ آرٹیکل کے مطابق اگر یہ معلومات افشاں کرنے کی وجہ ذاتی فائدے کے لیے یا کسی دوسرے شخص کے فائدے کے لیے ہو تو جرم کو سنگین صورت حال سمجھا جائے گا۔

 

اس پوسٹ کو متحدہ عرب امارات کے پبلک پراسیکیوشن نے جمعرات 24 مارچ کو اپنے سرکاری سوشل میڈیا چینلز پر شیئر کیا تھا۔

 

2021کے وفاقی حکم نامے کے قانون نمبر 34 کا آرٹیکل 45 افواہوں اور سائبر کرائم کا مقابلہ کرنے سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص جہاں ملازمین کرتا ہو، اس حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کسی بھی چینل کا استعمال کرتے ہوئے معلومات افشاں کرنا ،اسے کہیں ظاہر کرنا ، پبلش کرنا یا متعلقہ فریق کی اجازت کے بغیر اسے ظاہر کرنے یا استعمال کرنا قانونی جرم ہے۔

 

مجرم کا اس طرح کی معلومات کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے یا کسی دوسرے شخص کے فائدے کے لیے استعمال کرنا ایک گھمبیر صورت حال تشکیل دے گا جس پر چھ ماہ سے کم قید اور 200,000 سے دس لاکھ درہم تک جرمانے کی سزا سنائی جائے گی۔

 

سائبر کرائم کا نیا قانون

یو اے ای کے سائبر کرائم قانون فیڈرل ڈیکری قانون نمبر 34 جو 2021 کا ہے اور دو جنوری 2022 کو نافذ ہوا، قانون افواہوں، جعلی خبروں، دھونس اور ہراس کی گردش پر بحث کرتا ہے۔

 

یو اے ای پبلک پراسیکیوشن کی سائبر کرائم کے خلاف مہم

حال ہی میں پبلک پراسیکیوشن سائبر کرائم کے نئے قانون کے بارے میں بیداری لانے کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال کر رہا ہے۔

 

Source: Gulf News

 

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button