متحدہ عرب امارات

شاید ریاست کی نیت یہ کبھی نہیں رہی کہ عوام کو انصاف فراہم کر سکے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا اعتراف

خلیج اردو

اسلام آباد : وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے کہاہے کہ جب تک سوچ کو حقائق میں نہیں ڈھالتے تب تک خرابیاں بھی ٹھیک نہیں ہوتیں،پورا سسٹم سائلین کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہے لیکن پریکٹیکلی ایسا نہیں ہو رہا،اب زمانہ بدل گیا جدت آچکی ہے سائلین کا بھی حق ہے ان کو بھی سہولت فراہم کی جائے۔

 

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس پراجیکٹ تقریب سے خطاب کرتے وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڈ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ درست اقدام اٹھایا جارہاہے،انصاف کی فراہمی کیلئے ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے،ضرورت مندوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے سہولتیں مہیا کرنی چاہیں،نظام انصاف میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے رہے۔

 

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے،کام کرنے سے خرابیاں دور ہوتی ہیں، جب شروع ہی نہیں ہو گا تخصیص نہیں کی جا سکتی،کرمنل جسٹس سسٹم کو بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے،اب لگ رہا ہے کہ بہتری کی طرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے، ہم لوگوں کو اٹھا کر جیل میں ڈالتے ہیں تین سال بعد کہتے ہیں آپکے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا آپ جا سکتے ہیں،کیا اس کے ان تین سال کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔

 

انہوں نے کہاکہ یہ موضوع میرے دل کے بہت قریب ہے،کرمنل جسٹس سسٹم میں ریفامز کی ضرورت ہے،بار کے دوستو کو کہوں گا اس پراجیکٹ کو مثبت طریقے سے دیکھیں،جو بند دروازے ہیں انہیں کھولیں ذہنوں کی کھڑکیاں بھی کھولیں، پراجیکٹ پر عمل بھی ہونا چاہیے میری دعا ہے اس میں آنے والی رکاوٹ دور ہوتی ہے،حکومت کے نمائندے کے طور پر وزیر اعظم کا مشن ہے کہ حصول انصاف کے لیے آسانیاں پیدا کریں،اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمارے کچھ دوست اس چکی سے نکل کر رہے ہیں،جیل ریفارمز بھی ان کے مدنظر ہیں۔

 

تقریب سے اپنے خطاب کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پٹوار اور تھانے سے بے انصافی شروع ہوتی ہے پھر عوام کی امید عدالتیں ہوتیں ہیں،ہماری جیلوں میں بھی جگہ سے زائد قیدی رکھے ہوئے ہیں،بارہ سال اگر کوئی جیل گیا اور بارہ سال بعد اس کی اپیل منظور ہو گی تو ذمہ دار کون ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ جن کی زمینوں پر اسلام آباد میں بڑے بڑے محل بن گئے ان متاثرین کو آج تک معاوضہ نہیں مل سکا، عدالتی نظام میں بھی انصاف نہیں شاید ریاست کی بھی ترجیح نہیں رہی، ڈسٹرکٹ کورٹس دکانوں میں کمرشل ایریاز میں بنائی گئیں تھیں،وکیل جج اور سائلین کے حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں،خوشی سے کہہ سکتا ہوں سابقہ حکومت نے ہماری درخواست پرڈسٹرکٹ کورٹس کمپلیکس کی بنیاد رکھی،کیا ہر سائل کو ایک مقرر مدت میں انصاف مل سکتا ہے یہ پراجیکٹ اس کے لیے ہے۔

 

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ میں وزیرقانون اور دیگر لوگوں کا مشکور ہوں کہ وہ یہاں آئے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک موثر عدالتی نظام ہونا انتہائی ضروری ہے،لیکن انصاف صرف عدالتوں پر منحصر نہیں، ایک شخص عدالت آتا ہی ناانصافی کی شکایت لے کر ہے،پٹوار خانے اور تھانے کی ناانصافیوں سے متاثرہ شخص عدالت آتا ہے،میرے پاس ایک ایسا کیس آیا جو پچاس سال پہلے سے زیرالتواء ہے،جو درخواست گزار تھا وہ اور اس کی بیوی دونوں فوت ہو چکے ہیں۔

 

اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وزیر قانون نے صرف ذکر کیا کہ کوئی صرف تین سال تک جیل میں رہا ہو،ہماری جیلوں میں بھی گنجائش سے زیادہ لوگوں کو رکھا گیا جیلوں میں بھی ناانصافی ہے،جس شخص نے 12 سال جیل میں کاٹے اور بعد میں بری ہو گیا اسکے وہ سال اسے کون دیگا،اسلام آباد کے رہائشیوں سے پچاس سال پہلے زمینیں چھین لی گئیں،انہی زمینوں پر بڑے بڑے محل تو بن گئے لیکن انکو معاوضہ نہیں ملا۔

 

انہوں نے کہاکہ اس بات سے انکار نہیں کہ عدلیہ میں بھی ناانصافی موجود ہے لیکن عدلیہ ریاست کی کبھی ترجیح ہی نہیں رہی، اسلام آباد کی ضلعی عدالتیں کمرشل پلازوں میں بنی رہی ہیں،ان عدالتوں میں جانے والے سائلین ہی نہیں بلکہ ججز کے بھی حقوق پامال ہوتے ہیں،گزشتہ حکومت نے ہماری بار سمجھی اور اب وہ کمپلیکس تیار ہونے کے قریب ہے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرقانون نے درست کہا کہ صرف بڑی بڑی عمارتیں بنانے سے انصاف نہیں ملتا، ہمیں مسائل کا ادراک تھا لیکن ہم ادارہ جاتی اصلاحات کے ماہر نہیں،ہمیں اندازہ تھا کہ ملک کے ایک بڑے طبقے کی انصاف تک رسائی نہیں ہے،جو لوگ ہائیکورٹ تک رسائی کی استطاعت نہیں رکھتے، یہ پراجیکٹ ان کیلئے ہے،ہم نے بہت سوچا کہ کیا کیا جائے تو لیکن ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی،یہ پراجیکٹ اصل سٹیک ہولڈرز سائلین کیلئے ہے جس کا تصور ہمیں آئین سے ملا۔

 

تقریب کے اختتام پر جسٹس ریفارمز پراجیکٹ کی ویب سائٹ لانچ کی گئی،جسٹس پراجیکٹ کی ایک اسٹیرنگ کمیٹی ہوگی جس میں چیف جسٹس ، ججز اور دیگر ادارے کمیٹی میں شامل ہوں گے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button