متحدہ عرب امارات

میڈیکل دنیا کی بڑی کامیابی : تھیلیسیمیا کا شکار بچے کے لیے متحدہ عرب امارات کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کامیابی سے کر لیا گیا

خلیج اردو
ابوظبہی : متحدہ عرب امارات میں تھیلیسیمیا کا شکار بچے کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ ابوظہبی کے ایک نجی اسپتال میں کامیابی سے کر لیا گیا ہے۔

تھیلیسیمیا کی بیماری دراصل خون کے سرخ زرات یعنی ہیموگلوبن کی ساخت میں ایک جینیاتی نقص ہے اور بچوں میں خون کی سب سے عام خرابی ہے اور جس کے لیے وقتاً فوقتاً خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خون کی کمی انہیں کسی اور کا خون لگوا کر پورا کی جاتی ہے۔

احمد نامی تین سالہ مریض پیدائش سے ہی تھیلیسیمیا میں مبتلا تھا اور علاج کے لیے عراق سے متحدہ عرب امارات گیا تھا۔

ابوظہبی کے برجیل میڈیکل سٹی میں پیڈیاٹرک ہیماتولوجی اور آنکولوجی کنسلٹنٹ کے سربراہ ڈاکٹر زین العابدین نے کہا کہ ہم ٹرانسپلانٹ کو کامیابی سے انجام دینے پر خوش ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تھیلیسیمیا میجر دراصل بچوں میں تھیلیسیمیا کی شدید ترین شکل ہے۔ اور اس بیماری کا واحد علاج بون میرو ٹرانسپلانٹیشن ہے۔

احمد کے والدین میں تھیلیسیمیا کی علامت تھی جس کا مطلب ہے کہ ان کے بچے میں تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہونے کا 25 فیصد امکان تھا۔ اگرچہ ان کے پہلے بچے کو کوئی پیچیدگی نہیں تھی لیکن احمد کی قیمست اتنی اچھی نہیں تھی اور اسے ماہانہ خون کی ضرورت پڑتی تھی۔

احمد کی والدہ کا کہنا ہے کہ سرجری کامیاب رہی ہے اور مجھے امید ہے کہ علاج کے اگلے مراحل میں احمد کی صحت میں بہتری آئے گی۔ میں سب کو مشورہ دیتی ہوں کہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ لازمی کروائیں تاکہ وہ ان مسائل کا شکار نہ ہوں جس کا ہم نے باحثیت والدین سامنا کیا۔

ڈاکٹر مانسی سچدیو، کنسلٹنٹ، پیڈیاٹرک ہیماتولوجی، آنکولوجی اور بون میرو نے نشاندہی کی کہ اگر تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کو بروقت خون کی منتقلی نہیں کی جاتی ہے تو وہ کمزوری، بھوک میں کمی اور سانس کی بندش جیسے مسائل کا کا شکار ہو سکتے ہیں اور خدانخواستہ ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

ایسے مریضوں کو نہ صرف خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وہ بیماری کی وجہ سے دیگر پیچیدگیوں کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ انہیں چیلیشن تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے جو مہنگی دوا ہے جو بار بار خون کی منتقلی کی وجہ سے جسم میں جمع ہونے والے آئرن کی مقدار کو کم کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

جسم میں آئرن کی مقدار زیادہ ہونے سے دل، جگر اور دیگر اعضاء متاثر ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر مانسی نے اس بات پر زور دیا کہ خوش قسمتی سے متائثرہ خاندان میں ایک مکمل میچ ڈونر تلاش کرنے میں کامیاب رہے جو احمد کی 17 سالہ بہن تھی۔

ہم انہیں عراق سے یہاں لانے میں کامیاب ہوئے اور اس کا بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوا۔ اس کا ٹرانسپلانٹ کامیاب رہا اور وہ بہت اچھا محسوس کر کررہا ہے۔ وہ اب تھیلیسیمیا سے ٹھیک ہوگیا ہے اور اسے ماہانہ خون کی منتقلی کی ضرورت بھی نہیں ہوگی اور مستقبل میں تھیلیسیمیا کی وجہ سے پیدا ہونے والی کسی پیچیدگی کا شکار نہیں ہوگا۔

والدہ نے طبی عملے کی عالمی معیار کی دیکھ بھال اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے ابوظبہی کے نظام صحت کے معیار کو سراہا۔

Source: Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button