متحدہ عرب امارات

اپنے بچوں کو جنسی استحصال سے بچائیں: متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والی بین الاقوامی سیکورٹی الائنس کی جانب سے آپریشن : جنسی زیادتی کا شکار 549 بچوں کو ریسکیو کیا گیا

خلیج اردو
06 دسمبر 2020
ابوظبہی : ابوظہبی میں مقیم بین الاقوامی سیکورٹی اتحاد (آئی ایس اے) کے ایک اعلی عہدے دار نے انکشاف کیا ہے کہ 11 حکومتوں کے تعاون سے چلنے والے بچوں کے تحفظ کے ایک بڑے آپریشن کے نتیجے میں 549 بچوں کو کسی بڑے نقصان اور استحصال سے بچایا گیا ہے۔

آئی ایس اے کے لیفٹیننٹ عبد اللہ الہاشمی کا کہنا ہے کہ آئی ایس اے نے آپریشن کو مربوط کیا ، جس کے نتیجے میں بچوں کے استحصال میں ملوث افراد یا اس جیسی سرگرمیوں سے متعلق 771 گرفتاری اور 580 ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز کو روکنا تھا جو بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد کی تشہیر اور ان کا اشتراک کرنے کیلئے استعمال ہوتے تھے۔ اس آپریشن میں بچوں کے کسی بھی سطح پر abuse کو روکنا مقصد تھا۔ اس کارروائی میں سیکڑوں بچوں کی نشاندہی ہوئی جو مکروہ اور بدبودار ماحول میں رہ رہے تھے۔

آئی ایس اے کے ایک اہلکار نے خلیج ٹائمز کو بتایا کہ گندے ماحول میں رہنے والے بچوں کو ان گھروں سے پولیس اور بچوں کی حفاظت کی خدمات کے ذریعہ گھروں سے نکال کر محفوظ گھروں میں رکھا گیا تھا اور انہیں جسمانی اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال دی گئی تاکہ وہ اس صدمے کو دور خود سے کرسکیں جس سے وہ گزر رہے تھے۔ جس کرب اور اذیت میں وہ مبتلا تھے ، انہیں اس سے باہر نکالنے کیلئے خصوصی علاج فراہم کیا گیا۔

انہوں نے وضاحت کی اس باوجود کہ ہمیں ان بچوں کی فکر ہے جن کو نامناسب ماحول میں پایا گیا۔ پھر بھی اس بات پر ہمیں بے حد فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے آپریشن نے انہیں بچایا ہے اور انہیں نقصان سے پاک زندگی گزارنے کا ماحول دیا۔

یہ خاص آپریشن جنوری میں شروع ہوا تھا اور مئی میں اس کا اختتام ہونا تھا۔ تاہم کورونا وائرس کے دوران بچوں کے آن لائن استحصال میں اضافے کے سبب ستمبر کے آخر تک اسے توسیع دی گئی۔ بچوں کے استحصال سے نمٹنے کیلئے مختلف ممالک نے اپنے تعاون اور معلومات کے اشتراک کی سطح میں اضافہ کیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جنسی مجرموں سے متعلق ڈیٹا کے حصول اور ان کا اشتراک کرنے کیلئے نجی کمپنیوں کے ساتھ بھی تعاون کیا۔

کوویڈ کے درمیان آن لائن جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ

لیفٹیننٹ الہاشمی نے کہا کہ ہم نے تسلیم کیا ہے کہ وبائی امراض کے دوران آن لائن جنسی استحصال میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ معاشرے خطرے میں ہیں کیونکہ دنیا بھر میں بہت سارے بچوں کو جرائم پیشہ شکاریوں سے آن لائن جنسی استحصال کرنے کا خطرہ ہے جو بحرانوں میں ڈھل چکے ہیں اور نوجوانوں کا بدحالی کی حد تک استحصال کرتے ہیں۔

کیپٹن کھیتر نے کہا کہ کوویڈ ۔19 کے نتیجے میں بچے زیادہ وقت آن لائن گزار رہے ہیں۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن اور گھر میں قیام کے احکامات کا مطلب ہے کہ بچے تعلیم تک رسائی حاصل کر رہے ہیں اپنے دوستوں سے بات چیت کر رہے ہیں اور تفریح ​​کا زیادہ وقت آن لائن گزار رہے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی اس وقت بیشتر وقت والدین بچوں پر توجہ نہیں دے پاتے کیونکہ والدین بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ گھر سے کام کرنے میں توازن پیدا کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ بچوں کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ استحصال کرنے والوں کی جانب سے دھمکیوں کا جواب نہ دیں اور کسی خطرناک بالغ یا حکام کو اس خطرے کی اطلاع دیں۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں بچوں اور والدین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ایک بار جب وہ کوئی بھی چیز آن لائن بھیج دیتے ہیں تو وہ ہمیشہ کیلئے موجود رہتا ہے۔

اطالوی وزارت داخلہ کے نمائندے (منسٹریو ڈیل انٹرنو) نے کہا کہ "انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی تعداد میں ایک نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد اطالوی علاقے میں پولیس آپریشنل سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ خاص طور پر نابالغوں سے متعلق جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

عہدیدار نےاس بات پر زور دیا کہ قومی سلامتی کے نظام کے خیالات اور معلومات کو شیئر کرنے کے امکان نے یقینی طور پر نئی بین الاقوامی تعاون کی بنیاد رکھنا اور تکنیکی اور آپریشنل سطح پر اضافے کو ممکن بنایا ہے ۔ ایک ایسے ماحول تک پہنچنے کا امکان جو ابھی تک پوری طرح سے تلاش نہیں کیا گیا ہے کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

آپریشن کے طریقہ کار پر تبصرہ کرتے ہوئے کیپٹن کھتیر نے کہا کہ انٹرنیٹ کی نوعیت کی وجہ سے ، آن لائن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال ایک سنگین جرم ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے باہمی تعاون کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے ہمیں وسائل کو اکٹھا کرنے اور معلومات کا تبادلہ کرنے کی سہولت اور آسانی ملتی ہے ۔اس سے ہمیں زیادتی اور استحصال کرنے والوں کو پکڑنے اور متاثرین کی شناخت اور ان کی حفاظت کیلئے بہت تیزی سے کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔

ممبر آف پبلک کے رپورٹس کے مطابق بشمول متاثرین بھی اسی طرح ہمارے کام کی خفیہ نوعیت نے ہمیں بچوں کو جنسی شکار کرنے کا نشانہ بنے والوں تک پہنچایا ۔ عملی طور پر ، ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ کلاسیفائیڈ رہتا ہے تاکہ آئندہ کی کارروائیوں میں سمجھوتہ نہ کیا جاسکے ۔

وہ تمام بچے جن کو بچایا گیا ، سب 18 سال سے کم عمر کے تھے۔ عام طور پر 18 سال سے کم کو بچے تصور کیا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ 18 سال سے کم تمام عمر کے بچوں کو استحصال کا نشانہ بنایا گیا اور کسی مخصوص عمر گروپ کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ہم نے ہر عمر کے خطرے سے دوچار بچوں کی شناخت اور ان کی مدد کی ۔ کیپٹن کھتیر نے وضاحت کی کہ گرفتار شدگان مختلف قسم کے جرائم اور وسیع پیمانے پر جرائم میں ملوث تھے۔ ان جرائم میں نابالغوں کے ساتھ جنسی زیادتی بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے مواد کی پیداوار اور تقسیم شامل ہے اور اس کا قبضہ بھی شامل ہے۔

آئی ایس اے کے اہلکار نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ، دیگر ایپلی کیشنز اور ویب سائٹ ان استحصال کرنے والوں کو روکنے میں بہت کچھ کرسکتی ہیں۔ بلٹ ان حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے – جیسے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ان کی شناخت ان کی اپ لوڈ کردہ فوٹو سے مماثل ہے، چہرے کی شناخت کا سافٹ ویئر اگر صارفین کو سیلفی لینے کیلئے کہے تو کافی سود مند ہوگا۔ کیپٹن کھتیر نے مشورہ دیا کہ اعتدال پسندانہ پالیسیوں اور رپورٹس کو فعال بنانے کو بڑھاوا دیا جانا چاہئے جن میں عملے کی باقاعدہ تربیت شامل ہونی چاہیئے۔ اسے ان امور میں شامل کیا جانا چاہیئے جو بچوں کے تحفظ سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماجی اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کو وقتا فوقتا 18 سال سے کم عمر کے تمام رجسٹرڈ صارفین کو خود کی حفاظت سے متعلق اگاہی دینی چاہیئے۔ انہیں اپنے پلیٹ فارم پر استعمال کرنے کے اشارے کے ساتھ [email protected]
بھی پیغامات بھیج دینی چاہیئے۔ انہیں کوئی بھی شکایت ہو وہ [email protected]
پر بتا سکتے ہیں۔

 

کیپٹن کھتیر کے مطابق بچوں کا استحصال کرنے والے شکاری کسی بھی ایسے ڈیجیٹل نیٹ ورک میں گھسنا چاہتے ہیں جو بچوں میں مقبول ہو ۔ اکثر وہ اپنے ہی عصر کے ہم عمر کے طور پر خود کو پیش کرتے ہیں اور اسی طرح کی سرگرمیوں میں دلچسپیوں کو اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نقصان دہ یا استحصالی اور مکروہ سلوک کرنے سے پہلے وہ بچوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ منفرد ہیں یا کسی بھی طرح دیگر بچوں سے مختلف اور خاص ہیں اور ان بچوں سے انلائن گیمز ہارتے ہیں یا کسی طرح خود کو ایکسپرٹ ثابت کرکے بچوں کو خود پر منحصر کردیتے ہیں اور پھر بچوں کی مدد کے بہانے یہ ان کا استحصال کرتے ہیں۔ جس کیلئے یہ ضروری اور اہم ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ آن لائن ہونے کے خطرات کے بارے میں کھل کر گفتگو کریں۔

بچوں کی حفاظت کیلئے والدین کو انٹرنیٹ کے استعمال کے طریقہ کار کے بارے میں واضح قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں اور انہیں ان ویب سائٹس ، کھیلوں اور انکے اپلیکیشن کی نگرانی کرنی چاہئے جو ان کے بچے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے اسکرین ٹائم بنیادی طور پر اس وقت ظاہر آنا چاہئے جب ان بچوں کے ساتھ کوئی بالغ قریب ہو۔ والدین کو چاہیئے کہ بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال ، ان کی پریشانی کی علامت ، بچوں کے تحائف یا اپنے انٹرنیٹ کے استعمال کو خفیہ رکھنے کی کسی بھی کوشش کے بارے میں اچانک تبدیلیوں پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ یہ بچوں کے اسحصال کی علامات میں سے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے بچوں کا شاید استحصال ہورہا ہے۔

آئی ایس اے کیا ہے؟

فروری 2017 میں شروع ہونے والا آئی ایس اے ایک باہمی تعاون کے ساتھ بین الاقوامی نیٹ ورک ہے جو متحدہ عرب امارات ، فرانس ، بحرین ، مراکش ، اٹلی ، سینیگال ، سنگاپور ، سلوواکیہ اور اسپین کی حکومتوں کے اشتراک پر مشتمل ہے۔ ممبر ممالک نے اپنی وزارت داخلہ کے اندر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا اور برطانیہ اور آسٹریلیائی حکومتوں کے ماہرین اس آپریشن میں شامل ہیں۔ الائنس سیکریٹریٹ ابو ظہبی میں واقع ہے اور مشترکہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں الائنس کی تکنیکی ٹیموں کی مدد کرنے کیلئے کام کرتا ہے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button