خلیج اردو آن لائن: ابو ظہبی کے کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کورونا وائرس کے بعد کی زندگی کے حوالے سے کروائے گئے سروے کے نتائج شائع کر دیے گئے۔ اس سروے میں 47 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔
اس سروے کا مقصد لوگوں کے رہن سہن پر وبا کے اثرات اور اسکے بعد کی توقعات کا تجزیہ کرنا اور مستقبل میں بہتر پلاننگ کرنا تھا۔
سروے کے نتائج کےمطابق سروے میں شرکت کرنے والوں میں 55 فیصد خواتین اور 45 فیصد مرد تھے۔
سروے کے نتائج درج ذٰیل ہیں:
57 فیصد افراد کا خیال تھا کہ ابو ظہبی میں زندگی اس سال معمول کی جانب لوٹ آئے گی۔ جبکہ 14 فیصد کا خیال تھا کہ زندگی اگلے سال وسط میں معمول کے جانب لوٹے گی۔
جبکہ 29 فیصد افراد نے کہا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہ سکتے۔
سروے میں کاروبار کے حوالے سے بھی کچھ سوالات پوچھے گئے تھے۔ جن کے نتائج درج ذیل ہیں:
82 سے 83 فیصد افراد کا خیال تھا کہ کورونا وبا کے بعد کاروباری حضرات کاروبار کے لیے ڈیجیٹل طریقہ کار اپنائیں گے۔
جبکہ 81 فیصد افراد نے تصدیق کی کہ وبا کے بعد ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز اور دیگر خدامات سر انجام دینے کے لیے ڈیجیٹل طریقہ کار معمول بن جائیں گے۔
بیروزگار افراد میں سے 63 فیصد کا خیال ہے کہ وہ نوکری حاصل کرنےمیں کامیاب ہوجائیں گے۔
جبکہ 75 فیصد کا خیال ہے کہ کورونا کے بعد گھر سے کام کرنا ایک معمول بن جائے گا۔
54 فیصد والدین کا کہنا تھا کہ ستمبر میں سکول کھلنے کے بعد وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں گے۔
27 فیصد کا کہنا تھا کہ بچوں کو سکول بھیجنے کا فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائے گا۔
جبکہ 19 فیصد نے گھر سے تعلیم جاری رکھنے کو ترجیح دی۔
سروے کے مطابق 80 فیصد افراد کا یقین تھا کہ ٹیکنالوجی نے انکی زندگی بہتر بنانے میں کردار ادا کیا۔
جبکہ 79 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں خود کے لیے جدید ٹیکنالوجی حامل اشیا تلاش کیں
کورونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت پر اعتماد کے متعلق سوالات کے جواب میں 92 فیصد افراد نے کورونا وبا کے کنٹرول کے لیے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات اور حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا۔
کمیونٹٰی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کی مشیر ڈاکٹر مونا ال بہار نے بتایا کہ کورونا کے بعد کی زندگی کے حوالے سے یہ سروے کمیونٹٰی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے لانچ کیئے گئے سرویز کی ایک سیریز ہے۔ جن میں وبا کے لوگوں کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ان سرویز کو کرنے کے لیے سائنسی طریقہ کار کو اپنایا گیا ہے تاکہ مستقبل کے چیلنجز کا تعین کر کے فیصلہ سازوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے مناسب فیصلے کر سکیں۔
ڈاکٹر مونا کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایک اچھے کل کے بارے میں پر اعتماد ہیں۔ تمام اشاریے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں صورتحال کے مستحکم ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔
Source: Khaleej Times