متحدہ عرب اماراتلائف سٹائل

متحدہ عرب امارات: میچ میکنگ کے نام پر انلائن دھوکہ، آپ کو کیسے لوٹ لیا جاسکتا ہے؟

خلیج اردو
21 نومبر 2020
دبئی: کورونا وائرس کی وباء میں احتیاط کا کے دیگر طریقوں میں گھر پر ٹھہرنا محفوظ قرار پایا تو کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کو انلائن پاکر اس سے آپ کو محبت ہو جائے اور آپ اس سے شادی کر لیں؟ کیا ایسا واقعی ممکن ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے کوئی ایسا مل جائے جب دنیا کورونا وباء سے نمٹ رہی ہے؟

انلائن میچ میکرز کا دعویٰ یہی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انلائن میچ میکنگ سے آپ جیون ساتھی کو پاسکتے ہیں۔

حکام کے مطابق کورونا وباء پھیلنے سے پہلے انلائن شادی کرانے کی ایکٹیویٹیز میں اضافہ ہوا لیکن اصل مسئلہ ان کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک کا نہیں بلکہ مسئلہ ان کے قابل بھروسہ ہونے کا ہے۔

پولیس نے فراڈ اور بلیک میلنگ کے متعدد کیسز پائے ہیں جس میں یکساں عمر کے مرد اور خواتین نے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا واعدہ کیا لیکن اختتام دھوکہ اور بلیک میلنگ پر ہوا۔

اس حوالے سے بڑھتے ہوئے فراڈ کے کیسز نے شارجہ اور دبئی پولیس کو مجبور کیا کہ وہ عوام کو محفوظ بنانے کیلئے انتباہ اور ہدایت نامہ جاری کرے۔ پولیس نے عوام سے غیرمعمولی احتیاط برتنے کا کہا ہے اور کسی بھی رابطے سے پہلے یقینی بنائیں کہ شادی بیورو کا دعویٰ کرنے والا ادارہ لائنسس یافتہ ہو۔

خاندانی امور سے متعلق مشاورت دینے والے ڈاکٹر راجہ الا عثمانی نے کہا ہے کہ الیکٹرانک میچ میکنگ کی سرگرمیاں "بہت خطرناک” ہیں ، بنیادی طور پر اس وجہ سے کہ کسی کے پاس اکثر کسی "میچ” یا شادی کے خواہشمند شخص کے بارے میں معلومات کی تصدیق کرنے کا طریقہ نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرےتے ہوئے کہا کہ اسمارٹ ٹکنالوجی کی آمد کے ساتھ چند برسوں میں میچ میکنگ کا تصور کس طرح تبدیل ہوا ہے۔ ڈاکٹر العثمانی نے کہا کہ پرانے دنوں میں برادری کے افراد ذاتی طور پر جانتے تھے کہ بہترین میچ ساز کون ہیں۔

لیکن کچھ کامیاب شادیاں کرا کر میچ میکرز نے اپنے ساکھ تو بٹھا لی لیکن انلائن میچ میکنگ سے فراڈ کرنے والوں کا کاروبار چمک اٹھا۔ جیسے جیسے کاروبار آن لائن ہوتا ہے ، لوگ دراصل ایسے میچ میکر کے ساتھ لین دین کرسکتے ہیں جن سے وہ کبھی نہیں ملا تھا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ بڑھتا ہوا یہ رجحان کو خطرناک بنا دیتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بہت سارے لوگ دھوکہ دہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر فراڈ کرنے والے جعلی میچ میکرز کے خلاف پولیس برسر پیکار ہیں۔ متائثرہ لوگوں کی شکایات پر پولیس مختلف کارروائیاں کررہی ہے۔ اکثر فراڈ کرنے والے شادی کرانے کی خواہش مند افراد کو قریب لانے کیلئے بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ذاتی تصاویریں ، تعلیمی قابلیت ، خاندان کا پس منظر اور ایسے دیگر معلومات آپ سے لی تو جاتیں ہیں لیکن کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ آپ کی معلومات محفوظ ہیں یا نہیں اور اسے بلیک میلنگ یا کسی جرم میں تو استعمال نہیں کیا جائے گا۔

شارجہ پولیس میں اینٹی سائیبرکرائم محکمہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ٹویٹر اور انسٹاگرام میں بہت سے اکاؤنٹ دیکھیں ہیں جو میچ میکرز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے کافی زیادہ فالورز ہیں۔ 40 ہزار سے 80 ہزار کے درمیان ان کے فالورز ہوتے ہیں۔ اب یہاں خدشے کی بات یہ ہے کہ لوگ کامنٹس میں اپنی ذاتی معلومات شیئر کرتے ہیں جو کہ تشویشناک ہے۔ یہاں لوگوں کی پرائیویسی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

اس حوالے سے جب خلیج ٹائمز نے ان اکاؤنٹ ہولڈرز سے رابطے کی کوشش کی تو وہ موقف دینے کیلئے دستیاب نہیں تھے۔ تاہم کچھ نے تصدیق کی کہ وہ یہ کاروبار کی نیت سے کررہے ہیں۔

میچ میکر ‘ام حمود’ نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ 26 برسوں سے زیادہ عرصہ سے اسی انڈسٹری میں ہیں۔ جوڑوں کو اکٹھا کرنا ایک ’پیشہ‘ ہے جو میں نے اپنی دادی سے سیکھا تھا۔

“میری دادی کی وجہ سے ممکن ہوا کہ مجھے بچپن سے ہی اس پیشے سے پیار ہوا۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب میں نے اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی بیٹیوں کی شادی کا انتظام کیا اور ان کی شادیوں کو ممکن بنایا۔ وہاں سے ۔ یہاں سے میں نے کوشش کی اور حلال شادیوں کے متلاشی کے نام سے اپنا میرج بیورو قائم کیا۔

انہوں نے کہا کہ اسے یہ سب آن لائن کرنے کی عادت نہیں تھی۔ لیکن پھر وہ آخر کار سوشل میڈیا کو استعمال کرنے پر مجبور ہوگئیں کیونکہ یہ صارفین کے ساتھ برادری کا فوری رابطہ ممکن بنانے کا طریقہ بن گیا تھا۔ اس کے علاوہ ، ڈیجیٹل مواصلاتی آلات کے استعمال میں بھی اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ام حمود نے اپنے سروسز کے بارے میں بتایا کہ وہ 5 ہزار درہم کی فیس چارج کرتی ہے ان سے جو شادی کے خواہش مند ہو اور یہ رقم مرد اور عورت دونوں سے لیا جاتا ہے۔ اس میں جوڑوں کو ایک دوسرے سے ملونا ، ان کی بات کرانا ، ان کی معلوماتا کا تبادلہ کرانا اور ان کا ریکارڈ رکھنا شامل ہے۔ اور ایک بار جب شادی طے ہو جاتی ہے تو صارف کو 15000 درہم کی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔

ام حمود دعویٰ کررہی ہے کہ وہ یہ سب کچھ رازداری میں کررہی ہے۔

بہت سے مرد تعلیم یافتہ خواتین سے شادی کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ 30 سے 43 سال کی خواتین سے شادی کی خواہش رکھتے ہیں۔ کچھ مرد خفیہ شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button