متحدہ عرب امارات

دبئی اور ابوظبہی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟

خلیج اردو
دبئی : ہر بار جب متحدہ عرب امارات میں بارش ہوتی ہے تو کچھ رہائشیوں کی جانب سے قیاس آرائیاں اور تبصرے شروع ہوجاتے ہیں کہ یہ بارش ملک کے کلاؤڈ سیڈنگ پروگرام کی وجہ سے ہوئی ہے۔

تاہم اس حوالے سے کام کرنے والے اور تجربہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ تاحال وہ اس حوالے سے مکمل طور پر نااشنا ہیں کہ یہ نظام کیسے کام کرتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ ہے کیا چیز؟
سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہو کہ یہ کسی نطرح بادلوں میں کیمیکلز انجکٹ کرنے جیسا کوئی آسان کام نہیں۔

چین میں ہوا ژن چوانگ ژی سائنس اور ٹیکنالوجی گروپ کے چیف سائنسدان لولن زو جو کلاؤڈ پر تحقیق کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ ایک بہت ہی پیچیدہ آپریشن ہے جس کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ سائنسی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

خاص طور پر یہ کنیکٹیو بادل کیلئے گرم ہوا کے بڑھنے کے عمل سے بنتا ہے۔ بادل خود بہت متحرک چیز کا نام ہے۔ اگر آپ بادل کی کچھ چیزوں کو تبدیل کرتے ہیں تو اس کے ایسے نتائج ہو سکتے ہیں جو خود مشاہدے کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں بہت پیچیدہ ہیں اور ایسے اثرات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

کلاؤڈ سیڈنگ کتنی مؤئثر ہے؟
مسٹر لولن نے بتایا کہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بادل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ وہ بادل جو پہاڑوں پر ہوتے ہیں ، مختلف ہوتے ہیں ، وہ ان بادلوں سے مختلف ہوتے ہیں جو میدانی علاقوں میں دیکھائی جاتے ہیں۔

کلاؤڈ سیڈنگ کے ذرات کا حجم جو عام طور پر نمک کے کرسٹل پر مشتمل ہوتا ہے، بارش پر اثر ڈال سکتا ہے جبکہ درامدار اس پر بھی ہوتا ہے کہ اس میں مواد کی مقدار کتنی ہے۔

تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس میں ذراعت کی مقدار زیادہ کرنے سے ہی بارش ہوگی۔

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تمام پراسس ضائع ہوجائے۔ سائنسدان اس حوالے سے کام کررہے ہیں کہ وہ اس عمل کو کمپیوٹر کی مدد سے بہتر بنا سکیں۔

مسٹر لولن نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں خاص طور پر بادل پیچیدہ ہیں۔ جب یہ بادل بنتے ہیں تو اس کی پیشن گوئی کرنا مشکل ہوتا ہے ۔اگر بادل کسی پہاڑ کے قریب بنتے ہیں تو وہ ساکن ہوتے ہیں اور آپ انہیں زیادہ احتیاط سے دیکھ سکتے ہیں۔

یو اے ای میں چلتا ہوا بادل بہت پیچیدہ ہے۔ ہمارے پاس سمندری نمک، ایروسول اور دھول بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ اس بات پر اثر انداز ہوتے ہیں کہ بادل کیسے بنتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ ایسے طریقوں سے جو شاید اتنے واضح نہ ہوں۔

امارات میں کئی دہائیوں سے کلاؤڈ سیڈنگ کا عمل جاری ہے۔ اس حوالے سے امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس عمل میں بہتری آئی گی۔ تاوقت سائنسدان یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ یہ تحقیق کتنی موثر ہے یا پروگرام کتنی اضافی بارش پیدا کرتا ہے۔

Source :The National

 

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button