متحدہ عرب اماراتعالمی خبریںمتحدہ عرب امارات کرونا اپڈیٹ

جانیے کن ممالک میں اب تک کورونا وائرس کی نئی قسم کی تصدیق ہو چکی ہے

 

خلیج اردو آن لائن:

یو کے میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم نے ساری دنیا میں ایک بار پھر سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

متعدد ممالک نے یو کے ساتھ فضائی آپریشنز پر پابندی عائد کردی ہے۔ اور کئی ممالک نے وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے اپنے بارڈرز بھی بند کردیے ہیں۔

یو کے میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی اس نئی قسم نے کے بارے میں برطانیہ کے ماہرین صحت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور اسی وجہ سے ملک میں کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ قسم جنوبی انگلینڈ میں سامنے آئی تھی جو 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ 13 دسمبر تک برطانیہ میں 1108 کیسز میں کورونا کی نئی قسم کی تشخیص ہوئی تھی۔ جوکہ اصل تعداد سے کم تصور کی جا رہی ہے۔

درج ذیل ممالک میں کورونا کی نئی قسم کی تصدیق ہو چکی ہے:

اسپین میں کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے 4 کسیز کی تصدیق کی جا چکی ہے۔

اور یہ تمام کیسز وہ ہیں جو حال ہی میں یو کے سے اسپین آئے تھے۔

جبکہ فرانس میں نئی قسم کورونا کے ایک کیس کی تصدیق کی گئی ہے۔

جمعے کے روز جاپان نے یو کے سے آںے والے 5 مسافروں میں کورونا کی نئی قسم کی تصدیق کی ہے۔

جبکہ اس کے علاوہ اٹلی، ڈنمارک، سوئیز لینڈ، لبنان، جرمنی، آسٹریلیا، آئر لینڈ، نیدر لینڈ، میں کورونا کی نئی قسم کے کیسز رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔

مزید برآں، بھارت کی جنوبی ریاست کیرلا میں یو کے سے آںے والے 8 مسافروں میں کورونا کی تصدیق کے بعد انکے نمونے لیبارٹی بھیجے گئے ہیں تاکہ نئی قسم کے حوالے جانچ کی جا سکے۔

کیا متحدہ عرب امارات میں بھی کورونا وائرس کی نئی قسم کے کیس سامنے آئے ہیں؟

خوش قسمتی سے متحدہ عرب امارات میں کورونا کی نئی قسم کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہو ہے۔ اور حکام کی جانب سے عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس حوالے سے افواہیں پھیلانے سے گریز کریں۔

منگل کے روز یو اے ای حکومت کے سرکاری ترجمان عمر عبدالرحمان الحمادی نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور حالات کنٹرول میں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یو اے ای ہیلتھ سیکٹر ہر قسم کی تبدیلی کی شناخت کرنے اور اس سے نمٹنے کا اہل ہے۔

Source: Gulf News

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button