متحدہ عرب امارات

دبئی ہسپتال کی جانب سے 73 سالہ کینسر کی مریضہ کے 1 لاکھ درہم کے بل معاف

ہمیشہ کسی اماراتی، یا عرب یا ہپستال کے عملے میں کسی نے آگے بڑھ کر دوائیاں خریدنے میں اس کی مالی مدد کی، دیپا

 

خلیج اردو آن لائن: یہ کہانی ہے شارجہ کی رہائشی دیپا وسندانی کی جو اپنی ماں کے کینسر کے علاج کے لیے کوشاں ہیں۔ دیپا وسندانی بتاتی ہیں کہ ہسپتال کی فراخ دلی اور ایسے لوگوں کی جانب سے مدد کا ملنا جنہیں وہ جاتنی تک نہیں، نے اس کو امید دلائی ہے۔

دیپا وسندانی نے خلیج ٹائمز کو بتایا کہ ” میرا شوہر مرمت کا کام کرتا ہےاور 4200 درہم کماتا ہے۔ جس میں سے 2000 درہم کرائے میں نکل جاتے ہیں۔ میں کپڑوں کی سلائی اور دھلائی کی دکان کھولی تھی، کام اچھا چل رہا تھا۔ لیکن 2018 میں بھارت میں مقیم میری ماں کو کینسر کی تشخیص کی گئی ہے۔ جس کے بعد میں نئی دلی میں اپنی ماں علاج کے اخراجات پورے کرنے لیے وہاں اپنا گھر بیچ دیا”۔

دیپا نے مزید بتایا کہ ” اس کے بعد وہ اپنی ماں کو وزٹ ویزے پر یو اے ای لے آئی، میں نے وزٹ ویزے کو رہائشی ویزے میں تبدیل کروانے کی کوشش کی، لیکن مجھے بتایا گیا کہ ایسا ہونا مشکل ہوگا’۔

اس دوران کورونا وبا پھیل گئی جس نے دیپا اور اس کے خاندان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اسے اپنی دکانیں بند کرنا پڑٰیں اور ملازمین کو فارغ کرنا پڑا۔ اس پر دیپا کا کہنا تھا کہ” ہمارے پاس چھوٹے سے خاندان کے لیے سب کچھ تھا اور گزشتہ کچھ ماہ سے ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا”۔

ماں کے علاج کے دوران ہسپتال اور دیگر افراد کی جانب سے دیپا کہ مدد کی گئی:

دیپا کی ماں کو دبئی ہسپتال میں داخل تھی۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے دیپا بتاتی ہیں کہ جب بھی ہسپتال کی جانب سے اسے ماں کی دوائیاں لانے کے لیے کہا گیا تو ہمیشہ کسی اماراتی، یا عرب یا ہپستال کے عملے میں کسی نے آگے بڑھ کر دوائیاں خریدنے میں اس کی مالی مدد کی۔

دیپا بتاتی ہیں کہ ” ہسپتال نے اس کی ماں کے علاج سے کبھی انکار نہیں کیا۔ انہوں میری ماں کو لگانے کے لیے کیمو کے ٹیکے مفت فراہم کیے۔ ایک بار دو نرسوں نے 250 درہم اکٹھے کر کے دوائیاں خریدنے میں میری مدد کی۔ ہسپتال کے بل تقریبا 1 لاکھ درہم ہو چکے ہیں، لیکن انہوں نے مجھے میری ماں کو ہسپتال سےلیجانے کی اجازت دی "۔

ایک بار ایک فارماسسٹ نے اسے اپنا کریڈٹ کارڈ دیا تاکہ وہ بل بھر سکے اور ایک بار ایک شخص نے دوسروں سے 50 درہم اکٹھے کرکے بل بھرنے لیے اسے دیے۔

دیپا کہتی ہے اس نے ان انجان چہروں میں خدا کو دیکھا ہے۔ دیپا نے خلیج ٹائمز کو بتایا کہ وہ اس ” ہمدردی کا بدلا چکانے کے لیے نرسوں کے لیے 150 گاؤن سلائی کرے گی”۔

تاہم ویزا ختم ہونے بعد رعایتی مدت اختتام کے قریب ہونے کی وجہ سے دیپا نے اپنی بیمار ماں کو 7 اگست کو واپس نئی دلی بھیج دیا۔

دیپا نے بتایا کہ اس نے اپنا منگل سوتر بیچ کر اپنی ماں کے لیے بزنس کلاس ٹکٹ خریدا ہے۔ اس کے اوپر اس وقت 25 ہزار کے قریب قرض ہے۔ دیپا افسردہ ہیں لیکن پر امید ہیں کہ اگر انہیں نوکری مل جائےتو ابھی بھی حالات کو بدل سکتی ہیں۔

Source: Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button