متحدہ عرب امارات

کورونا احتطاطی تدابیر کے ثمرات آنا شروع ، متحدہ عر امارات میں فلو کیسز میں کمی

خلیج اردو
دبئی : متحدہ عرب امارات سمیت پوری دنیا میں کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے اختیار کی جانے والی احتطاطی تدابیر جہاں عوام کو کورونا وائرس کے مضر اثرات سے بچاتا ہے وہاں سانس کی دیگر بیماریوں میں بھی کمی آئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں کے مطابق ملک میں کی جانے والی احتیاطی تدابیر نے انفلوئنزا اور دیگر سانس کی بیماریوں کو کم کردیا ہے جو عام طور پر سال کے اس موسم میں بڑھتے ہیں۔

اگرچہ ملک میں آٹھ ہفتوں سے زیادہ عرصہ سے ایسا ہورہا ہے کہ روز سے کورونا وائرس کیسز کی تعداد ایک ہزار تک رپورٹ کی جارہی ہے تاہم یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس سال متعدد عام موسمی امراض کے واقعات غیر معمولی طور پر کم ہیں۔

ڈاکٹروں نے وضاحت کی ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے تدابیر جیسے ماسک پہننا ، سماجی فاصلہ اپنانے کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ، گھر سے کام اور مطالعہ کرنا وغیرہ سے سانس کی دیگر عام بیماریوں پر نمایاں اثر پڑا ہے۔

دبئی کے انٹرنیشنل سٹی کے ایسٹر اسپیشلیٹی میڈیکل سنٹر میں اندرونی طب اور ذیابیطس کے ماہر ڈاکٹر جمی جوزف نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلہ قائم رکھنے جیسے اقدامات سے کورونا وائرس کو روکنے والے فلو ، عام سردی ، برونکائٹس اور بہت سے وائرس کے واقعات کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ سماجی فاصلہ رکھنے ، چہرے کے ماسک ، ہاتھ دھونے اور ذاتی حفظان صحت میں اضافے کی وجہ سے سانس کی وہ بیماری جنہیں وائرل ڈیزیز کہا جاتا ہے ، کے پھیلنے میں کمی ہوئی ہے۔

لوگوں میں انفلوئنزا ویکسین کے بارے میں آگاہی بڑھائی گئی ہے جس کی وجہ سے اس سال فلو ویکسین لینے والے افراد کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا اندازہ ہے کہ عالمی سطح پر ہر سال پچاس لاکھ تک شدید بیماریاں پائی جاتی ہے جبکہ صرف پانچ لاکھ اموات موسمی انفلوئنزا سے ہوتیں ہیں۔ تاہم اب تک فلو کے کے کیسز میں معمول کے مطابق 1/10 حصے کی کمی ہوئی ہے۔

دبئی کے ابو ہیل کے کینیڈا کے اسپیشلسٹ اسپتال میں ماہر طبیب اور ذیابیطس کی ماہر ڈاکٹر سرلا کماری نے کہا ہے کہ ہمارے پاس پچھلے سال کے اس موسم میں لگ بھگ چھ سات مریض انفلوئنزا میں مبتلا تھے لیکن اس سے متعلقہ اعدادوشمار اس ہفتے صرف تین کے قریب ہے۔

دبئی کے مانخول کے ایسٹر اسپتال میں انٹرنل میڈیسن کی ماہر ڈاکٹر جیوتی اپادھیائے نے کہا ہے کہ ہمیں اس وقت تک ماسک پہننے کی ضرورت ہے جب تک کہ اکثریت آبادی کو کورونا وائرس کی ویکیسین نہیں لگائی جاتی۔ اسی طرح انفلوئنزا کی سالانہ ویکسینیشن ان لوگوں میں فلو سے بچاؤ کا بنیادی طریقہ ہے جو وائرل ٹرانسفرمیشن کی وجہ سے زیادہ خطرہ ہیں۔

سماجی دوری ، صحت سے متعلق آگاہی اور ماسک کے وسیع استعمال کی وجہ سے انفلوئنزا کے کیسوں نے اس سال دنیا بھر کے پیڈیاٹرک مریضوں میں قابل تحسین کمی کی ہے۔ 2019 کے مقابلے میں رواں سال انفلوئنزا سے متاثرہ بچوں کے معاملات کیلئے او پی ڈی اور داخل کیے گئے مریضوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ سانس کی بیماری میں مبتلا افراد کو ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق جو لوگ عام سردی ، کھانسی اور فلو جیسی علامات میں مبتلا ہیں انہیں لازمی طور پر ماسک پہننا چاہئے تاکہ دوسرے افراد میں اسے منتقل ہونے سے بچایا جاسکے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button