متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات: خبردار رہیں، سرکاری خدمات پیش کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس جعلی ہیں، پولیس کی ورننگ

خلیج اردو

دبئی: یو اے ای میں ایسے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے جہاں سرکاری خدمات کی تکمیل میں معاونت کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ کیا جارہا ہے۔ مختلف لائنسس یافتہ کمپنیوں کا نمائندہ بن کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دھوکہ دہی کرنے والوں کے اشتہارات سے آپ بھی متائثر ہو سکتے ہیں۔

 

اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے جہاں متحدہ عرب امارات کے متعدد رہائشیوں نے دھوکہ دہی کا شکار ہونے کے بعد پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر موجود جعلی اشتہارات سے دھوکہ کھا گئے۔

 

حکام نے تصدیق کی ہے کہ رہائشی طریقہ کار، گاڑیوں کے لائسنس، اپارٹمنٹ کرایہ پر لینے کے معاہدوں، اسکولوں میں بچوں کے داخلے میں مہارت حاصل کرنے والی لائسنس یافتہ کمپنیوں کا جعلی نمائندے بن کر ان نوسربازوں نے بہت سے رہائشیوں کو دھوکہ دیا ہے۔

 

اس بات کا انکشاف متائثرہ افراد پر تب ہوا جب انہوں نے مختلف سرکاری امور کے سرانجام دینے کیلئے ان سے بڑی رقم تو لی مگر اس کے بعد ان کا کام مکمل نہیں کیا۔

 

وزارت داخلہ نے ان لوگوں سے نمٹنے کے خلاف خبردار کیا ہے جنہوں نے لین دین کو مکمل کرنے کی خدمات فراہم کرنے کیلئے اشتہارات پوسٹ کرکے لوگوں کو لوٹا اور اس کیلئے کرونا وبا کا فائدہ اٹھایا۔

شارجہ پولیس کے کمانڈر ان چیف میجر جنرل سیف الزاری الشمسی نے عوام کو خبردار کیا کہ وہ سوشل میڈیا پر غیر سرکاری اکاؤنٹس سے رابطے یا ذاتی معلومات کا تبادلہ کرنے سے باز رہیں کیونکہ فراڈ کرنے والے ان معلومات کا بعد میں استعمال کرتے ہوئے بلیک میلنگ کرتے ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں میں سے زیادہ تر کا تعلق منظم فراڈ نیٹ ورکس سے ہے جو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں اور خلیجی ممالک اور عرب ممالک میں عام طور پر فیملیز اور یوتھ کو نشانہ بناتے ہیں۔

 

جنرل سیف نے اس بات پر زور دیا کہ مشتہرین کے ساتھ کام کرنے سے پہلے ان کی حقیقی شناخت کی تصدیق لازمی ہے اور عوام پرکشش سوشل میڈیا پیجز سے دھوکہ نہ ہو اور کبھی بھی ان پیجز پر ذاتی معلومات پر مشتمل سرکاری دستاویز نہ بھیجیں۔

 

شارجہ پولیس نے جعل سازی کرنے والوں کے مشکوک اور جعلی اکاؤنٹس کی نگرانی کرکے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جرائم کو ختم کرنے کے لیے الیکٹرانک پٹرولنگ کاکام شروع کیا ہے۔

 

شارجہ پولیس کے سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار کے مطابق یہ سرگرمیاں منظم نیٹ ورکس کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ اکثر متائثرہ افراد ان کی رپورٹس کسی سمجھوتے کا شکار ہوکر نہیں کرتے جن سے ہم کہتے ہیں کہ وہ ایسے واقعات کی اطلاع پولیس کو لازمی دیں تاکہ ان عناصر کی بیخ کنی ہو۔

 

 

دبئی پولیس پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ انہیں اس قسم کی دھوکہ دہی سے متعلق بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ کچھ رہائشیوں کی جانب سے مبینہ خدمات کے لیے ان لوگوں سے رابطہ کرنے کی بنیادی وجہ خدمات کے اصل سرکاری چارجز کے مقابلے میں کم فیس کی پیشکش ہے۔

 

انہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس میں اکثر خدمات انلائن ہوئی تو نوسربازوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھایا۔ رہائشیوں نے ایسے لوگوں پر بھروسہ کیا جو اپنی ساکھ ثابت کرنے کے لیے اپنے کاروباری کارڈ بھیجتے ہیں۔

 

شارجہ کی عدالتوں کے قانونی وکیل سلیم سہوہ کا کہنا ہے کہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف الزامات میں دو سال سے کم قید اور 20,000 درہم جرمانہ شامل ہے۔

 

وکیل خالد المظمی نے کہا کہ کو بھی غیر لائسنس یافتہ شخص جو ایسے لین دین کیلئے خود کو سرکاری ایجنٹ ظاہر کرتا ہے، اس کا مقصد صارفین کے دستاویزات اور ذاتی ڈیٹا حاصل کرنا ہے جرم ہے جس کیلئے یہ افراد مختلف چالیں چلتے ہیں۔

 

انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر دھوکہ باز دھوکہ دہی کے ذریعے رقم چوری کرتے ہیں تو، وفاقی تعزیرات کے آرٹیکل 399 کے تحت جرمانہ "قید یا جرمانہ اور کیسز کے زیادہ ہونے پر اسے دو سال سے زیادہ کی قید یا جرمانے کی سزا ہوگی جو زیادہ سے زیادہ 20,000 درہم ہے۔

 

المازمی نے کہا کہ اگر فراڈیے ان معلومات کو افشاں کرتے ہیں تو انہیں ایک سال سے کم قید اور 20,000 درہم سے کم جرمانے کی سزا دی جائے گی، یا ان دونوں سزاؤں میں سے کسی ایک کی سزا ہوگی۔

 

سلیم عبید البلوشی نے کہا کہ انہیں خود فیس بک پر ایک ایسے شخص کا اکاؤنٹ ملا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سرکاری اداروں میں لین دین اور سرکاری کاغذات کی کلیئرنس کا مجاز نمائندہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایسی خدمات فراہم کیں جن میں گاڑیوں کی ملکیت کی تجدید، ان پر رجسٹرڈ خلاف ورزیوں کی ادائیگی، کارکنوں کے لیے رہائش کے طریقہ کار کی کلیئرنس اور رجسٹریشن اور منتقلی شامل ہے۔

 

Source:Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button