متحدہ عرب امارات

بیان حلفی کی خبر شائع کرنا والا صحافی معاف ، سابق جج پر توہین عدالت کی کارروائی کیلئے فرد جرم عائد

خلیج اردو
اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان پر فرد جرم عائد کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ٹرائل کے دوران اگر صحافی رپورٹر یا ایڈیٹر کی بدنیتی ظاہر ہوئی تو ان پر بھی فرد جرم عائد کی جائے گی۔ فرد جرم میں رانا شمیم پر 9 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم بیان حلفی توہین عدالت کیس کی آج کی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ حکم نامے کے ساتھ ساتھ رانا شمیم کیخلاف چارج شیٹ بھی جاری کی گئی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم نے فرد جرم کی کارروائی آگے بڑھانے کے بجائے انکوائری کی استدعا کی۔ فرد جرم عائد کرنے کا مقصد شفاف منصفانہ انصاف فراہم کرنا ہے۔ رانا شمیم کچھ عرصہ کیلئے سندھ ہائی کورٹ کے جج بھی رہے بعد ازاں رانا شمیم کو تین سال کے لیے گلگت بلتستان کا چیف جج لگادیا گیا۔

تحریری حکم نامہ میں لکھا گیا ہے کہ رانا شمیم نے اٹارنی جنرل کے بجائے ایڈووکیٹ جنرل اسلام کی تقرری کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ رانا شمیم کی دوسری درخواست بیان حلفی کی تحقیقات سے متعلق تھی۔ رانا شمیم کی دو درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کی جاتی ہیں۔ حکم نامے کے مطابق رانا شمیم پر کھلی عدالت میں فرد جرم عائد کی گئی۔ رانا شمیم نے صحت جرم سے انکار کیا اور کہا کہ وہ اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری ناصر زیدی دیگر صحافیوں کیساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ صحافی رہنماؤں نے بتایا کہ صحافی پہلے ہی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ کیلئے ناگزیر ہے تاہم آزادی اظہار رائے کا مطلب دیگر اداروں کا احترام بھی ہے۔ بادی النظر میں یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ صحافی کی جانب سے خبر انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے چھاپی گئی ہو۔ صحافی رپورٹر اور ایڈیٹر کے جارحانہ رویہ کے باوجود عدالت ان پر فرد جرم عائد نہیں کر رہی۔ ٹرائل کے دوران اگر صحافی رپورٹر یا ایڈیٹر کی بدنیتی ظاہر ہوئی تو ان پر بھی فرد جرم عائد کی جائے گی۔

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم پر عائد فردجرم میں رانا شمیم پر توہین عدالت کے 9 الزامات عائد کیے گئے جن میں بیان حلفی کی اشاعت سے نہ روکنا، بیان حلفی کے لیک ہونے پر کارروائی نہ کرنا، زیر التوا مقدمے پر اثر انداز ہونا اور عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنا شامل ہیں۔

اس سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ چیف جسٹس نے فرد جرم پڑھ کر سنائی۔ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم نے انگلینڈ میں بیان حلفی ریکارڈ کرایا۔ بقول ان کے چیف جسٹس ثاقب نثار چھٹیوں پر گلگت بلتستان آئے انہوں نے ہدایات دیں کہ نواز شریف اور مریم نواز الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنے چاہئیں۔عدالت نے صحافیوں کی حد تک فرد جرم کی کاروائی موخر کرتے ہوئے ، رانا شمیم کی انکوائری کروانے اور اٹارنی جنرل کو کیس سے الگ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے چارج سنا اور اسکو قبول کرتے ہیں۔ رانا شمیم نے کہا کہ کچھ چیزیں ماننے والی ہیں اور کچھ نہیں ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ رانا شمیم بولے وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔ میرے ساتھ اس طرح زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو چکی ،اب مزید بے توقیری نہ کی جائے ۔۔ یہ کس طرح کا بیانیہ ہے کہ اس عدالت ججز کمپرومائزڈ ہیںْ۔۔عدالت لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آ کر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے۔۔عدالت نے رانا شمیم کی شفاف انکوائری اور اٹارنی جنرل کو کیس سے الگ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں۔ کیس کی مزید سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی گئی۔۔

رانا شمیم کا میڈیا سے گفتگو میں کہناتھا کہ انھیں اکیلے دیکھ کر فرد جرم عائد کی گئی۔ جس صحافی نے خبر شائع کی اسے معاف کردیا گیا۔ صحافی نے سوال کیا آپ نے نواز شریف کے آفس میں بیان حلفی پردستخط کیےتھے؟ جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رانا شمیم بولے کہ فضول باتیں نا کریں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button