متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات میں حوثیوں کے حملے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانی کا وہ خواب جو اس کی زندگی میں پورا نہیں ہو سکا، مزدور کی موت نے پورے خاندان کی زندگی بدل ڈالی

"گھر والوں سے دور رہنا انتہائی تکلیف دہ ہے، میں محنت مشقت کرتا ہوں تاکہ بچے پڑھ لکھ جائیں، بیٹا ڈاکٹر بن گیا تو ابوظہبی چھوڑ کر پاکستان واپس آ جاوں گا"

متحدہ عرب امارات میں حوثیوں کے حملے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانی کا وہ خواب جو اس کی زندگی میں پورا نہیں ہو سکا۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت پر حوثی باغیوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانی مزدور کے اہل خانہ کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی، گھر کے تمام افراد کیلئے اپنے کفیل کی موت کا غم ناقابل برداشت بن گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ابوظہبی میں حوثی باغیوں کے ایک حملے میں جاں بحق ہونے والے 49 برس کے پاکستانی آئل ٹینکر ڈرائیور مامور خان کے بڑے بیٹے یاسر کا بتانا ہے کہ میرے والد کی خواہش تھی کہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے۔
والد نے کہا تھا کہ بیٹا ڈاکٹر بن گیا تو پھر وہ ابوظہبی چھوڑ کر واپس پاکستان منتقل ہو جائیں گے۔

مامور خان نے سوگواران میں پانچ بیٹے، تین بیٹیاں اور بیوہ کو چھوڑا ہے، جبکہ مامور کے والدین بھی ابھی حیات ہیں۔ مامور خان کے بیٹے یاسر مامور کہتے ہیں کہ کئی سال پہلے جب اُن کے والد ابو ظہبی گئے تھے تو ہمارے گھر کے حالات اچھے نہیں تھے۔ میں تعلیم حاصل نہیں کر پایا تھا مگر اب میرے چھوٹے بہن بھائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجھ سے چھوٹا بھائی بہت لائق ہے۔

وہ اپنی کلاس میں اول آتا ہے۔ والد صاحب نے اس سے کہہ رکھا تھا وہ جتنا چاہے پڑھے اور اخراجات کی فکر نہ کرے۔ والد کی خواہش تھی کہ چھوٹا بیٹا پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائے، وہ کہتے تھے کہ جس دن بیٹا ڈاکٹر بن گیا اس دن وہ محنت مزدوری چھوڑ دیں گے اور پاکستان واپس آ جائیں گے۔ میں گھر کا بڑا بیٹا ہوں اور صبح سویرے محنت مزدوری کے لیے چلا جاتا ہوں۔

جس وجہ سے والد صاحب سے زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔ مگر چند دن قبل انھوں نے مجھ سے بات کی اور بتایا کہ ابوظہبی سے آنے والے ایک شخص کے ہاتھ انھوں نے کچھ تحائف بھجوائے ہیں، وہ جا کر میں وزیرستان سے لے لوں۔ اُن تحائف میں میرے چھوٹے بھائی کے لیے کچھ نقد رقم تھی۔ یہ رقم اس کو تعلیم میں اچھی کارگردگی پر انعام کے طور پر بھجوائی گئی تھی جبکہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔

یاسر کا بتانا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے والد سے درخواست کی کہ انہیں بھی اپنے ساتھ ابوظہبی لے جائیں، تو والد نے جواب دیا کہ گھر والوں سے دور رہنا انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے، میں اس لیے محنت مشقت کرتا ہوں تاکہ میرے بچے پڑھ لکھ جائیں۔ یاسر کے مطابق والد ہی خاندان کی تمام مالی ضروریات پوری کرتے تھے، وہ خود تو یومیہ محض 500 سے 600 روپے ہی کما پاتا ہے، والد کی موت کے بعد وہ پریشان ہے کہ اتنے بڑے خاندان کی کفالت کیسے کرے، اپنے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات کیسے پورا کرے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button