متحدہ عرب امارات

ایک کمپنی کے ساتھ جاب لیٹر دستخط کرنے کے بعد کیا میں دوسری نوکری قبول کرسکتا ہوں؟

خلیج اردو
22 اگست 2021
دبئی : متحدہ عرب امارات میں ملازمت سے متعلق قوانین جہاں ملازمین کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں وہاں ان ملازمین کو کچھ ضابطوں کا پابند بھی بناتی ہے۔ ایک صارف نے خلیج ٹائمز سے سوال پوچھا ہے جس کا جواب ہمارے قارئین کیلئے یکساں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

سوال : میں نے دبئی میں موجود ایک کمپنی کی جانب سے ایک کمپنی کے پیشکش کو قبول کرتے ہوئے آفر لیٹر پر دستخط کیے ہیں تاہم مجھے ایک دوسری کمپنی کی جانب سے ملازمت کی بہترین آفر ملی ہے جو پہلے پیشکش کی گئی ملازمت سے بہتر ہے۔ میں ایسی صورت حال میں قانونی طور پر کیا کروں؟

جواب : آپ کے سوال کو دیکھتے ہوئے ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ نے ایک ایسی کمپنی کی جانب سے ملازمت کا معاہدہ قبول کرکے سائن کیا ہے جو متحدہ عرب امارات کی وزارت انسانی وسائل کے ساتھ رجسٹر ہے۔ یہاں پر وزارت کی دوہزار پندرہ کے فرمان نمبر 764 قابل استعمال ہے۔

ایک بار جب آجر اور ملازم ملازمت کے آفر لیٹر پر دستخط کرتے ہیں تو اگلا مرحلہ معاہدہ کرنا ہے۔ اس میں وہی شرائط ہونی چاہئیں جو کہ رجسٹر ہونے سے پہلے ایمپلائمنٹ آفر لیٹر میں دی گئی ہیں۔

یہ 2015 کے وزارتی فرمان نمبر 764 کے آرٹیکل 4 کے مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آجر کو لازمی طور پر وزارت کے نظام سے ایک معیاری معاہدہ حاصل کرنا چاہیے جو کہ ملازمت کی پیشکش کی شرائط کو پورا کرتا ہے ۔

ایک بار جب دونوں فریقین کے درمیان معداہدہ ہوگیا اور ملازم نے اس پر دستخط کیے تو اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس سے انکار کیا جا سکتا۔

یہاں چونکہ آپ نے کوئی معاہدہ نہیں کیا تو صرف ملازمت کی پیشکش کا خط معاہدے کے طور پر نافذ نہیں ہو سکتا۔ وزارت افرادی قوت کے ساتھ رجسٹرڈ ایک روزگار کا معاہدہ بھی آفر لیٹر کیلئے ضروری ہے جو قانونی طور پر قابل عمل ہو۔

متحدہ عرب امارات میں مروجہ طریقوں کے مطابق وزارت افرادی قوت صرف ان شکایات پر غور کر سکتا ہے جہاں ملازمت کا معاہدہ اس کے ساتھ رجسٹرڈ ہو۔ لہذا اگر آپ کو کسی اور کمپنی سے بہتر ملازمت کی پیشکش موصول ہوئی ہے تو آپ اسے قبول کر سکتے ہیں۔

یہ وضاھت کی جاتی ہے کہ اگر پیشکش کے خط میں ایسا پیرا بھی موجود ہو جس کے مطابق اس پیشکش سے روگردانی پر آپ کو جرمانہ کیا جا سکتا ہے تو ایسے میں کمپنی آپ کے خلاف سول مقدمہ دائر کر سکتی ہے۔

آپ کو یہ بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کسی قانون کے ماہر کے پاس مزید تفصیلات کیلئے جائیں تاکہ آپ کا مسئلہ حل ہو سکے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button