متحدہ عرب امارات

ٍمتحدہ عرب امارات : کیا کرونا وائرس کے پیش نظر میں اپنے دفتر کا کام گھر سے جاری رکھ سکتا ہوں؟

خلیج اردو
25 جولائی 2021
دبئی : خلیج ٹائمز کو گھر سے کام کرنے سے متعلق ایک صارف نے سوال بھیجا ہے جس کا جواب ہماری قارئین کیلئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ذیل میں سوال اور اس کا جواب موجود ہے۔

سوال : میں دبئی میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ میں کرونا وائرس کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہوں اور میرے بزرگ والدین میرے ساتھ رہتے ہیں۔ کیا میں اپنی کمپنی کو درخواست دے سکتا ہوں کہ مجھے اجازت دے کہ میں گھر سے کام کروں؟ اگر میری کمپنی والے مجھے دفتر میں ہی کام کیلئے مجبور کرے تو کیا میں کوئی راستہ اپنا سکتا ہوں؟

جواب : متحدہ عرب امارات نے کرونا وائرس کو بہترین انداز میں ہینڈل کیا ہے جسے عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ امارات نے زندگیاں بچانے میں ایک بہترین توازن رکھا ہے۔

آپ کے سوال کو دیکھتے ہوئے ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ آپ متحدہ عرب میں موجود ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ یہاں وزارتی قرارداد نمبر 279 استعمال ہوگا۔

یہ بھی واضح ہونا چاہیئے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے وزارت انسانی وسائل اور ایمریٹائزیشن نے چھبیس مارچ 2020 کو جو قرارداد پاس کیا تھا وہ یہاں لاگو ہوگا۔

قرارداد کے مطابق حفاظتی اقدامات کا خیال رکھنا آجر اور ملازم کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے جس میں وبائی مرض میں آجر کو حق حاصل ہے کہ وہ ملازمین کو گھر سے کام کرنے کا پابند بنائے۔

مذکورہ بالا قانون کی فراہمی کی بنا پر اگر آپ کے کام کو لازمی طور پر دفتر میں موجودگی کی ضرورت نہیں ہے ، تو آپ اپنے آجر سے درخواست کرسکتے ہیں کہ آپ کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔ تاہم اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آپ کے بزرگ والدین آپ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اگر آپ کے آجر کو آپ کی ضرورت کے مطابق دفتر کے احاطے سے کام کرنے کی ضرورت ہو اس بنیاد پر آپ کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔

دبئی میں آجر اپنے تمام ملازمین کو دفتر سے کام کرنے کا کہہ سکتے ہیں کیونکہ امارات نے تمام دفاتر کو 100 فیصد صلاحیت پر کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر آپ کا آجر اصرار کرتا ہے کہ آپ دفتر سے کام کرے تو عملے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کرونا وائرس حفاظتی تدابیر پر عمل کریں جیسے ماسک پہننا ، ایک دوسرے کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا اور باقاعدگی سے ہاتھ دھونے یا صاف کرنا۔ آپ کے آجر کو بھی باقاعدگی سے دفتر کے احاطے کی صفائی کی ضرورت ہے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button