متحدہ عرب اماراتٹپس / سٹوری

کیا متحدہ عرب امارات میں لائف ٹائم انویسٹر ویزا حاصل کیا جاسکتا ہے؟ تفصیلات جانیں

 

خلیج اردو آن لائن:

اگر آپ متحدہ عرب امارات میں کوئی بزنس شروع کرنے جارہے ہیں تو آپ کو بہت سارے بزنس کنسلٹنٹ یواے ای کے لائف ٹائم انویسٹر ویزے کے لیے اپلائی کرنے کا کہیں گئے۔ لیکن لائف ٹائم انویسٹر ویزے کے حقیقی معنی کیا ہیں کیا یہ واقعی پوری زندگی کے لیے قابل استعمال ہوتا؟ ذیل میں ان سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں:

درج بالا سوالوں کا واضح جواب یہ کہ متحدہ عرب امارات میں سرکاری طور پر کوئی بھی لائف ٹائم ویزا جاری نہیں کیا جاتا۔ اور جو رہائشی ویزا جاری کیا جاتا ہے وہ یا تو دو یا تین سالوں کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔

لہذا جب سرمایہ کاری میں مدد کرنے والی کمپنیاں آپ سے لائف ٹائم ویزے کے لیے اپلائی کرنے کا کہتی ہیں تو اس کا مطلب ہوتا کہ وہ آپ کے ویزے کو دو یا تین سال بعد رینیو کروانے کے لیے آپ کی جگہ پر فیس بھریں گیں۔ جسے وہ لائف ٹایم ویزے کا نام دیتی کیونکہ ہر دو یا تین سال بعد آپ کو ویزا رینیو کروانے کے لیے اخراجات برداشت نہیں کروانے پڑیں بلکہ آپ کی جگہ پر وہ کمپنی اخراجات ادا کرے گی جو آپ کو بزنس شروع کرنے میں مدد  کر رہی ہے۔

یہ کمپنیاں ایسا کیوں کرتی ہیں؟

دبئی میں قائم فرسٹ گیٹ بزنس کمپنی کے تعلقات عامہ کے افسر سراج الدین عمر نے نجی خبررساں ادارے گلف نیوز کو بتایا کہ ایسی کمپنیوں کی طرف سے لائف ٹائم ویزے کی آُپشن دراصل ایک مارکیٹنگ کی سٹریٹیجی ہوتی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اپنی انتظامی اخراجات بھی پورے کرلیتی ہیں اور ایسی اخراجات بھی جو آپ کے بزنس لائسنس کی تجدید کروانے پر ادا کرنے پڑتے ہیں۔

عمر نے مزید بتایا کہ ” بہت ساری کمپیناں ایسی آفرز اس لیے بھی دیتی ہیں کیونکہ تین سالہ انویسٹر ویزے کی تجدید کی فیس بہت کم ہے۔ اور کمپنی یہ رقم کلائنٹ سے سپانسر شپ فیس آفس رینٹ اور دیگر فیسوں کی مد میں آرام سے حاصل کر لیتی ہیں۔ اس لیے انہیں ویزے کی تجدید کے اخراجات برداشت کرنا آسان ہوتا ہے”۔

ایک اور کمپنی وریجو زون کی آپریشن ہیڈ  سارا گھی والا نے بتایا کہ انکی کمپنی بھی ایسے پیکجز اپنئ کلائنٹس کو آفر کرتی ہے۔ اور انہوں نے بتایا کہ کورونا کے دنوں میں پیکج بہت زیادہ مقبول ہوئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ” دنیا بھر میں کورونا وبا کے باوجود ہم نے دیکھا کہ متحدہ عرب امارا میں بہت سارے لوگ اپنا کاروبار شروع کرنے چاہتے ہیں۔ جس کے بہت ساری وجوہات ہیں جیسا اس وقت کاروبار شروع کرنے کے لیے فیسیں سب سے کم ہیں، اور اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ڈریم پراجیکٹ یا کاروبار شروع کرنے چاہتے ہیں۔

اور بہت سارے سرمایہ داروں نے ہم سے کہا کہ وہ اپنی فیملیز کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہم نے کلائنٹس کی ایسی خواہشات کو دیکھتے ہوئے انکے لیے ایسے پیکجز تشکیل دیے ہیں جو انہیں انکا کاربار شروع کرنے میں اور اپنی فیملیز کا مستقبل محفوظ بنانے میں مدد دیں”۔

تاہم، سارا کا مزید کہنا تھا کہ ویزے کی تجدید کی فیس اور پراسیس کے بارے میں انویسٹر کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جب آپ بزنس شروع کروانے میں مدد کرنے والی کمپنی کی طرف سے ایسی کوئی آفر سنیں تو پہلے جان لیں کہ وہ آپ کو کونسی فیس چارج کررہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ اگر سب فیسیں جو آپ سے لی جارہی ہیں وہ آپ کے لیے قابل قبول ہیں تو ہی ایسی آفر کو قبول کریں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ ویزے کے حوالےسے کوئی بھی آفر قبول کرتے ہوئے کمپنی سے ویزے سے متعلق سوال کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ جاننے کی کوشش کریں اس کمپنی پر کس زون کے قوانین کا اطلاق ہوگا، فری زون کا یا مین لینڈ کا۔

کیونکہ کمپنی کے لائسنس کی مدت بھی زون کے مطابق ہوتی ہے اور اسی طرح سے آپ کو پوچھنا چاہیے کہ جو پیکج آپ حاصل کر رہے ہیں اس میں ویزوں کا کوٹہ کتنا ہے۔

اور آپ جاننا چاہیے کہ آپ کو کاروبار شروع کرنے میں مدد کرنے والی کمپنی جو پیکج آپ کو دے رہی ہے اس میں ملنے والے بزنس لائسنس میں آپ کو کتنی کاروباروں سرگرمیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کیونکہ مستقبل میں آپ کو بزنس کو پھیلانےمیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

عام طور پر رہائشی ویزوں کی مدت کتنی ہوتی ہے؟َ

متحدہ عرب امارات میں آپ کے اسٹیٹس کے حساب سے مختلف حکام ویزے جاری کرتی ہیں۔ جیسا کہ اگر آپ اپنی فیملی کے زیر سایہ ہیں تو آپ کے والدین آپ کے سپانسر ہوں گے۔

کمپنیاں اپنے ملازمین کا ویزا سپانسر کر سکتی ہیں۔ اور سرمایہ دار اپنا تجاری لائسنس کی رجسٹریشن مکمل کرنے بعد انویسٹر ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔

اسی طرح سے رہائشی ویزے عام طور پر 2 یا 3 سال کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ تاہم، مین لینڈ میں رجسٹر کمپنیاں 2 سالہ ویزا آفر کر سکتی ہیں جب کے فری زون میں قائم کمپنیاں 3 سالہ مدت کا رہائشی ویزا جاری کر سکتی ہیں۔  اور یہ ویزے ہر دو سال یا تین سال بعد رینیو کروانے پڑتے ہیں۔

تاہم، 5 سال یا 10 سالہ مدت کا ویزا جاری کرنا حکام کی صوابدید پر ہوتا ہے اور ایسا بہت کم ہی کیا جاتا ہے۔

Source: Gulf News

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button