متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات:ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کے ملازمین نے 300 ٹن کچرے کے ڈھیر میں گم ہوجانے والا بٹوا ڈھونڈ نکالا

خلیج اردو

شارجہ:کبھی کبھی ہم انجانے میں ایسی چیز  کچرے میں پھینک دیتے ہیں جو ہمارے لئے قیمتی ہوتی ہے۔بلکل ایسا ہی ہوا شارجہ میں گزشتہ روز ایک فلپائنی شہری کے ساتھ,جو ایک ہیلتھ کئیر ورکر ہیں۔فلپائنی شہری کے مطابق گزشتہ روز وہ اپنے کام سے واپس جارہی تھی کہ راستے میں انہوں نے چبس کا خالی پیکٹ اور کوڑا کرکٹ سے بھرا ایک بیگ کچرے کے ڈبے میں پھینکا جس میں اس کا بٹوا بھی موجود تھا۔ہیلتھ ورکرر نے بتایا کہ اُس کو اگلی صبح بٹوا گم ہونے کا پتہ لگا تو وہ جلدی سے اس ڈبے کے پاس پہنچی۔ وہاں جاکر ڈبہ دیکھا تو وہ خالی تھا۔ کچرا اٹھانے والے ڈبے میں موجود کوڑا کرکٹ لے گئے تھے۔

 

فلپائنی شہر نے بتایا کہ ڈبہ خالی دیکھ کر وہ رونے لگی تو پاس سے گرزتی ایک انڈین خاتون نے دلاسہ دیا اور رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے بٹوا گم ہونے کے بارے میں بتایا۔انڈین خاتون فلپائنی ہیلتھ ورکر کو ویسٹ منیجمنٹ کمپنی بییا کے دفتر لے گئی۔

 

کمپنی کے منیجر لوئی گیبیلاگون نے بتایا کہ جب فلپائنی شہری اپنی درخواست لیکر ہمارے پاس آئی تو اس وقت ہماری سائٹ پر 300 ٹن کے قریب کچرا موجود تھا جس میں بٹوا ڈھونڈنا بلکل بھی آسان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ تھی کہ بٹوا ایک پولیتھین بیگ میں تھا جس کے باعث اس کی تلاش ممکن ہوئی۔

لوئی گیبیلاگون نے کہا کہ ہم نے  خاتون کی بتائی ہوئی جگہ سے کچرا اٹھا کر لانے والے ٹرک کو ٹریس کیا اور پتہ لگایا کہ اس ٹرک سے کچرا کہاں پھینکا گیا۔ اس کے بعد اس جگہ پر جہاں جہاں پولیتھین کے بیگ نظر آئے ان کو سب کو نکال کر دیکھنا شروع کیا۔بالاخر کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد خاتوں کا بٹوا ملا۔

 

کمپنی کے منیجر نے کہا کہ خاتون اپنے بٹوے کو دیکھ کر رو پڑی اور وہ ایک جذباتی منظر تھا۔ خاتون کے بٹوے میں کیش،بینک کارڈز،اماراتی آئی ڈی اور دیگر ضروری اشیا موجود تھیں۔فلپائنی ہیلتھ ورکر نے بٹوا ڈھونڈنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں کمپنی اور تمام ملازمین کی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اتنی محنت اور جذبے سے انکا بٹوا ڈھونڈنے میں مدد کی۔

ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کے منیجر لوئی گیبیلاگون نے بتایا کہ اُن کے پاس روزانہ کی بنیاد پر شہریوں کی جانب سے اشیا کی گمشدگی کے حوالےسے کئی کالز آتی ہیں جن میں اکثر پاسپورٹ کے بارے میں ہوتی ہیں۔

SOURCE: KHALEEJ TIMES

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button