متحدہ عرب امارات

خبردار! یو اے ای میں وزٹ ویزا پر کام کرتے پکڑے گئے تو سخت سزا ہوگی

وزٹ ویزا پر کام کرنے پر جیل ، 10 ہزار درہم جرمانہ اور ملک بدری ہو سکتی ہے۔ دبئی پبلک پراسیکیوشن نے متنبہ کردیا

دبئی پبلک پراسیکیوشن نے خبردار کیا ہے کہ وزٹ ویزا پر کام کرنے پر جیل ، 10 ہزار درہم جرمانہ اور ملک بدری ہو سکتی ہے کیوں کہ صحیح ورک پرمٹ نہ ہونا متحدہ عرب امارات کے لیبر قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اماراتی میڈیا سے معلوم ہوا ہے کہ دبئی پبلک پراسیکیوشن نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک پوسٹ میں لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ ضروری ورک پرمٹ حاصل کیے بغیر کام کرنے پر سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں 3 ماہ کی جیل کے ساتھ ساتھ 10 ہزار درہم تک کا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔

استغاثہ کی طرف سے پوسٹ کردہ ایڈوائزری میں لکھا گیا کہ ہر غیر ملکی جو وزٹ ویزا کے تحت ملک میں داخل ہوا اور ملک میں کام کرنا چاہتا ہے، اسے مجاز اتھارٹی سے اجازت حاصل کرنا ہوگی، بصورت دیگر اسے تین ماہ سے زیادہ مدت کے لیے قید کی سزا دی جائے گی اور 10,000 درہم تک جرمانہ یا ان دو میں سے ایک سزا اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو عدالت ریاست سے ملک بدر کرنے کا حکم دے گی۔

گلف نیوز کے مطابق اس سے قطع نظر کہ آپ بطور کارکن کس دائرہ اختیار میں آتے ہیں ، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ جب آپ ملک میں کسی تنظیم کے لیے کام کرنا شروع کریں تو آپ کے پاس ایک درست ورک پرمٹ ہے ، اگر آپ متحدہ عرب امارات کا دورہ کر رہے ہیں اور آپ کو نوکری کی پیشکش موصول ہوئی ہے تو یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ آپ کے کاغذات درست ہیں-

قانونی طور پر ورک پرمٹ حاصل کرنے کے ذرائع درج ذیل ہیں؛
> آپ کسی کمپنی کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر، فری زون میں یا پبلک سیکٹر میں کام کر رہے ہیں، آپ کا ورک پرمٹ متعلقہ اتھارٹی جاری کرے گا۔
> پرائیویٹ سیکٹر کے لیے تمام ورک پرمٹس وزارت برائے انسانی وسائل اور امارات (MOHRE) کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں۔
> ہر فری زون کے پاس ایک اتھارٹی ہوتی ہے جو اپنے دائرہ اختیار میں آجروں اور ملازمین کے درمیان مزدوری کے معاہدوں اور تعلقات کو منظم کرتی ہے۔
> پبلک سیکٹر میں وفاقی سطح پر فیڈرل اتھارٹی فار گورنمنٹ ہیومن ریسورسز (FAHR) وزارتوں اور وفاقی حکام کے لیے انسانی وسائل کے انتظام کا انچارج ہے جو 2008 کے وفاقی حکم نامے کے قانون نمبر 11 کے تابع ہیں ، جبکہ ہر ایک کے اندر سرکاری محکمے امارات مقامی حکومتوں کے زیر انتظام ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button