عالمی خبریں

ہمیں لاک ڈاؤن کے دوران جن تکالیف کا سامنا ہوا کشمیری وہ پچھلے ستر سالوں سے برداشت کررہے ہیں

خلیج اردو
16 جنوری 2021
لندن: برطانوی پارلیمنٹ میں رواں ہفتے جہاں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث دیکھی گئی وہیں لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ نے ویسٹ منسٹر ہال میں ایک ایسی تقریر کی جس نے سب کو متائثر کیا۔۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو براہ راست نشر ہونے والے اس مباحثے میں رکن پارلیمنٹ سارہ اوونس نے پارلیمنٹیرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے دوران یقیناً ہم نے کسی مرحلے میں دلبرداشتہ ہوکر لاک ڈاؤن کو برا بھلا کہا ہوگا تاہم کشمیری عوام کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور کشمیر میں لاک ڈاؤن عوام کی حفاظت کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کے کنٹرول کیلئے ہے۔

اننہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ2019 کے لاک ڈاؤن نے عالمی سطح پر رابطوں کو بند کیا تھا، آمدورفت متائثر ہوا اور لوگ لاک ڈاؤن میں گھروں تک محدود رہے، اہلخانہ اپنے پیاروں کے بارے میں پریشان تھے، لیکن لیوٹن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، (مقبوضہ) کشمیر سے اپنی فیس حاصل کرنے سے قاصر تھے کیونکہ کشمیر میں بینکنگ ختم کردی گئی تھی، کرفیو (نافذ کیا گیا تھا اور یہ سب لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے تھا، وائرس کنٹرول کیلئے نہیں، 5 لاکھ فوجیوں نے لاک ڈاؤن نافذ کیا۔

ایم پی سارہ اوونس کا تعلق انتخابی حلقہ لوٹن نارتھ سے ہے جہاں بریٹن پاکستانیوں کی ایک خاصی تعداد رہتی ہے۔ برطانیہ بھر میں پاکستانی تارکین وطن نے کشمیر میں بھارتی قبضے میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں اب تک سب سے نمایاں کردار ادا کیا ہے خاص طور پر اگست 2019 کے بعد سے جب نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت نے وادی کو غیرقانونی طور پر اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا تھا۔

رواں ہفتے انہوں نے پارلیمنٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح وبائی بیماری نے کشمیریوں کی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کو ہسپتالوں سے واپس بھیجے جانے کی اطلاع ملی ہے، یہ وبا کے وقت میں چونکا دینے والی بات ہے۔

سارہ کا کہنا تھا کہ ‘کشمیری خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی متعدد اطلاعات ہیں، بی جے پی کے اعلیٰ عہدیدار متعدد مرتبہ ریکارڈ پر کشمیری خواتین کو اس تنازعہ کا حصہ بنانے کے اپنے ارادوں کو ظاہر کرچکے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ کشمیر میں ایسی خواتین ہیں جو اپنی دہلیز پر ہزاروں فوجیوں کے حملہ کرنے سے گھبراتی ہیں، خواتین اپنی زندگی سے خوف کھاتی ہیں اور وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں ۔ میں مطالبہ کرتی ہوں کہ برطانوی حکومت کشمیر کی صورتحال کی مذمت کرنے کیلئے مزید اقدامات کریں۔

انکا کہنا تھا کہ ‘ہم اکثر وزیر سے یہ سنتے ہیں کہ برطانیہ خواتین کے حقوق کی پرواہ کرتا ہے تاہم کیا یہ عمل بیان بازی سے میل کھاتے ہیں؟ وہ کیا ضمانتیں دے سکتے ہیں کہ ہوم آفس میں ہمارے ساتھی ریپ کے واقعات اور سیاسی پناہ کے معاملات کو سنجیدگی سے لے کر اقدامات کریں گے۔

 

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button