عالمی خبریں

مہسا امینی کی حق میں مظاہروں میں شدت،ایرانی حکومت نےمظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا

خلیج اردو

تہران :ایران میںاخلاقی پولیس کی حراست میں مبینہ تشدد سے مہاسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں شدت آگئی۔

رپورٹ کے مطابق تہران میں 3 خواتین صحافیوں کو گرفتار کر کے جیل منتقل کردیا گیا۔ خواتین صحافیوں کو نہیں بتایا گیا کہ انہیں کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ایران میں جاری مظاہروں کے دوران اب تک 80 صحافی گرفتار ہوچکے ہیں۔

مظاہرین اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ردعمل میں یورپی یونین نے ایران کی مزید 37 شخصیات اور اداروں پر پابندی لگادی ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق یورپی یونین اس سے پہلے 60 سے زائد ایرانی حکام اور اداروں پر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔

16 ستمبر 2016 کو اخلاقی پولیس نے تہران یونیورسٹی کی طالبہ مہسا امینی کو مبینہ طور پر نامناسب حجاب پہننے پر گرفتار کیا کیوں کہ ان کے بال حجاب سے باہر نظر آ رہے تھے۔

دو روز بعد مہا امینی چل بسی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، مگر انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق پولیس نے انہیں ایک وین میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور ان کے بازوؤں اور ٹانگوں پر تشدد کے نشان تھے۔

اس واقعے کے بعد پورے ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور دنیا کے کئی شہروں میں ایران خواتین کے حقوق کے سلسلے میں مظاہروں کی لہر پھوٹ نکلی، جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ایران میں ہونے والے کئی مظاہرے پرتشدد رخ اختیار کر گئے اور ان میں مظاہرین کے علاوہ پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔ امریکہ کی وزارتِ خزانہ اور یورپی یونین دونوں نے اس کے ردِ عمل میں ایرانی گشتِ ارشاد پر پابندیاں لگا دی تھیں۔

ایران میں حکومت مخالف مظاہرے اپنے 100ویں دن میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے طویل ترین حکومت مخالف مظاہرے ہیں لیکن عوام کو اس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی نیوز ایجنسی (HRANA) کے مطابق 69 بچوں سمیت 500 سے زائد مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ دو مظاہرین کو پھانسی دی گئی جبکہ کم از کم 26 دیگر کو بھی اسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جسے ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ’شیم ٹرائلز‘ قرار دیا ہے۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی ایران میں ملک گیر مظاہرے ہوئے ہیں لیکن موجودہ مظاہرے اپنی نوعیت میں مختلف ہیں کیونکہ ان میں پورے معاشرے کے لوگ شامل ہیں اور خواتین ’عورت، زندگی، اور آزادی‘ کے نعروں کے تحت مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔

اس سے قبل ایک بار سنہ 2017 کے اواخر اور سنہ 2018 کے اوائل کے دوران مظاہرے ہو‏ئے تھے اور پھر نومبر 2019 میں بھی ایک مظاہرہ ہوا تھا۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button