عالمی خبریں

پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے خواتین اور بچوں کے بے شمار مسائل سے متعلق اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

خلیج اردو

نیویارک: اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ساڑھے چھ لاکھ خواتین حاملہ جبکہ 73 ہزار کے قریب خواتین کے ہاں آئندہ ماہ بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔حاملہ خواتین کو تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز، طبی امداد، نومولود کی بہتر نگہداشت کے وسائل بھی درکار ہوں گے۔

 

رپورٹ بتایا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب سے 1 ہزار کلینکس اور اسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ روڈ انفراسٹرکچر تباہ ہونے سے اسپتال اور کلینکس تک رسائی مشکل ہوچکی ہے۔10 لاکھ مکانات منہدم ہونے سے خواتین، لڑکیوں کو گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود سے متعلق ادارے یونیسف نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی، یونیسف کے مطابق سیلاب سے 30 لاکھ سے زائد پاکستانی بچے خطرات سے دوچار ہیں۔ بچوں کو بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کا سامنا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے پہلے ہی 40 فیصد بچے سٹنٹنگ کا شکار تھے۔

 

یونیسف کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ 30 لاکھ سیلاب متاثرین میں تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ بچے شامل ہیں۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں 350 سے زائد بچوں سمیت 1100 سے زائد افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دنوں، ہفتوں میں خطرناک انسانی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ بروقت غذائی امداد، صاف پانی، طبی سہولیات نہ ملیں تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

 

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں 30 فیصد آبی  نظام کو نقصان پہنچا۔ رفع حاجت کی جگہ کی عدم دستیابی، غیر محفوظ پینے کا پانی سے مزید بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ ہے۔

 

یہ اطلاعات ہیں کہ 17,566 اسکولوں کی عمارتیں جزوی یا مکمل تباہ ہو چکیں۔اسکولوں کی تباہی سے بچوں کی تعلیم کو مزید خطرہ لاحق ہو گئے ہیں۔

 

اقوام متحدہ کے ادارے نے تشویش ظاہر کی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دو برس سکول بند رہے، اب پھر اسکولوں کی بندش بچوں کی پڑھائی میں خلل کا باعث ہو گی۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں ایک تہائی لڑکیاں، لڑکے پہلے ہی اسکولوں سے باہر تھے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button