پاکستانی خبریںمعلومات

قبضہ مافیا کیا ہے اور پاکستان میں یہ کیسے کام کرتا ہے؟

پاکستان میں ان دنوں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے قبضہ مافیا کے خلاف کارروائیوں کا چرچا ہے۔ لاہور میں ایک سیاسی جماعت کے حامیوں کے گھر اسی مہم کے سلسلے میں توڑے گئے جنھیں ہائی کورٹ کے حکم پر روک دیا گیا۔
اسلام آباد انتظامیہ نے بھی قبضہ مافیا کے 80 افراد کی فہرست تیار کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی اور گرینڈ آپریشن شروع کر دیا ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد کے ایک شہری نے زمین پر قبضے کی کوشش میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص کے قتل کی ایف آئی آر پنجاب حکومت کے وزیر علیم خان سمیت متعدد افراد کے خلاف درج کرائی ہے جن کی اسلام آباد میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی موجود ہے۔
پاکستان کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدموں کو سامنا رکھا جائے تو قبضے کی کئی اقسام اور طریقے ہیں۔ ایک تو کوئی فرد گروہ یا کمپنی کسی سرکاری اراضی پر قابض ہو جاتی ہے۔ دوسری قسم ہے کہ کسی علاقے کے مخصوص گروہ عام افراد کی زمین یا پلاٹ پر بزور طاقت قبضہ کر لیتے ہیں۔ تیسرا طبقہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا ہے جو اپنے قریب ترین علاقوں میں زمینوں پر قبضہ کرتی ہیں اور پھر مالکان کو زمین انتہائی کم قیمت پر بیچنے پر مجبور کرکے اپنے قبضے کو قانونی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ عزیز رشتہ دار، دوست یا پراپرٹی ڈیلر بھی دھوکہ دہی یا فراڈ کے ذریعے زمین ہتھیا لیتے ہیں۔

قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے قریب ہر وہ فرد جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر سرکاری یا غیر سرکاری زمین پر قبضہ کرتا ہے اور مسلسل اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اس کے قبضے میں زیادہ سے زیادہ زمین آجائے وہی قبضہ مافیا کہلاتا ہے۔ لیکن سرکار از خود صرف اسی کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو سرکاری زمینوں پر قابض ہوتا ہے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق قبضہ مافیا کی تعریف یہ ہے کہ ’کوئی بھی فرد یا افراد کسی بھی دوسرے کی غیر منقولہ جائیداد پر غیر قانونی یا زبردستی قبضہ کرے۔‘

پاکستان میں کسی بھی فرد کو اس کی زمین یا جائیداد سے محروم کیے جانے یا قبضہ کرنے کے خلاف قانون ’ال لیگل ڈسپوزیشن ایکٹ 2005‘ موجود ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ’کسی بھی شخص کو بغیر کسی قانونی اختیار کے حق نہیں کہ وہ کسی فرد کو جو کسی زمین پر قانونی طور قابض ہو یا اس کا مالک ہو، اس کی زمین سے محروم کرے، ہتھیائے، قبضہ کرے یا اس پر اپنا کنٹرول جمائے۔‘
اس قانون کے تحت سیشن جج مقامی پولیس کو معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے اور پھر عدالتی حکم کی روشنی میں اصل حق دار کو زمین دلانے میں کردار ادا کرتا ہے۔

پاکستان میں عموماً سرکاری طور پر اعلانات ہوتے ہیں کہ قبضہ مافیا سے اتنی زمین واگزار کرا لی گئی ہے۔ سینیئر قانون دان اکرام چوہدری کے مطابق ’پاکستان میں قبضہ مافیا سے مراد ایسے افراد کو ہی لیا جاتا ہے جو سرکار کی زمین پر قابض ہوتے ہیں۔ انھی سے سرکاری اراضی واگزار کرانے کے لیے کارروائیاں کی جاتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جب کوئی عام شہری یا ہاؤسنگ سوسائٹی کسی شہری کی زمین پر قبضہ کر لے تو یہ ایک سول تنازع ہوتا ہے جس کے لیے شہری سیشن کورٹ سے رجوع کرتے ہیں اور مقدمہ چلتے چلتے بعض اوقات سپریم کورٹ تک پہنچ جاتا ہے۔‘
اکرام چوہدری نے کہا کہ ’ان دنوں جو کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں وہ کسی عام شہری کی زمینوں پر قبضے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ سرکاری اراضی کا ہی تنازع ہے۔‘

ان کے مطابق ’اگر صاف نظر آ رہا ہو کہ ایک خاص گروہ کسی علاقے کی زمین حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے تو انتظامیہ عموماً اس کے خلاف متحرک ہو جاتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔‘
اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’قبضہ مافیا کے خلاف حالیہ کارروائی اور اس سلسلے میں تشکیل دی گئی کمیٹی کا تعلق سرکاری اراضی پر قابض افراد کے خلاف گرینڈ آپریشن سے ہے۔ اس سلسلے میں بنائی گئی فہرست کو بھی خفیہ رکھا گیا ہے تاکہ قابضین کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔‘
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’قانون کے مطابق اگر کوئی عدالت یا اتھارٹی کسی عام شہری کی زمین یا جائیداد واگزار کرانے کا حکم دے تو اس کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔‘

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button