متحدہ عرب امارات

باپ کے نام میں معمولی سی غلطی کے باعث بیس سال تک یو اے ای میں پھنسے رہنے والے بھارتی شہری کی کہانی

خلیج اردو آن لائن:

باپ کے نام میں اسپیلنگ کی ایک چھوٹی سے غلطی کی وجہ سے بیس سال تک یو اے ای میں پھنسا رہنے والے بھارتی شہری کو آخر کار اپنے گھر واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ یو اے ای حکام کی جانب 7 لاکھ 50 ہزار درہم کے جرمانے بھی معاف کر دیے گئے۔

بھارتی ریاست تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والا 56 سالہ شخص جس کے پورا نام تھناول میتھیزگن ہے۔ تھناول سن 2000 میں ابوظہبی ملازمت کے لیے آیا۔ جس کی تصدیق اس کے ملازمت کے ویزے کی انٹری پرمٹ پر لگی مہر سے کی جا سکتی ہے۔

تھناول کا کہنا ہے کہ جب وہ ابوظہبی پہنچا تو اس کے ایجنٹ نے اس سے اصل پاسپورٹ یہ کہ کر  لے لیا کہ میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اس کے پاسپورٹ پر رہائشی ویزا لگوایا جائے گا۔

لیکن تھناول نے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے بعد جب اپنے ایجنٹ سے رابطہ کیا تو ایجنٹ تاخیر کرنے لگا۔ تاہم، اس کے بعد تھناول کو معلوم ہوا کہ جس کمپنی میں اس کی نوکری ہونی تھی وہ بند ہوگئی ہے۔

اور تھناول کے ایجنٹ نے اس کا فون سننا بھی بند کر دیا اور اس کے بعد ایجنٹ غائب ہوگیا۔ یوں تھناول کے پاس صرف انٹری پرمٹ رہ گیا، نہ اس کا ویزا لگا اور نہ ہی اسکا اصل پاسپورٹ واپس ملا۔

یہاں سے تھناول کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ ایجنٹ کے غائب ہوجانے کے بعد تھناول ابوظہبی میں اپنے ملک کے کچھ افراد کے ساتھ ایک کمرے میں تقریبا 8 مہینے تک رہا اور پھر شارجہ آگیا اور چھوٹے موٹے کام کرنے لگا۔

تھناول اپنی گھر والوں کو پالنے کے لیے یو اے ای میں غیر قانونی طور پر رہنے لگا اور مختلف گھروں اور کمپنیوں میں پارٹ ٹائم نوکریاں کرنے لگا۔

تھناول واپس کیوں نہ جا سکا؟

اس سب کے ساتھ تھناول اپنے ملک واپس جانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ تھناول نے متحدہ عرب امارات حکومت کی جانب سے دی گئی ایمنسٹی اسکیموں میں بھی اپلائی کیا اور مختلف لوگوں کو 10 ہزار درہم بھی دیے لیکن وہ ملک واپس جانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

تھناول کو ایمنسٹی اسکیم اس لیے نہ مل سکی کیونکہ بھارت میں جب  متعلقہ ریجنل پاسپورٹ آفس سے متعلقہ تھانے میں تھناول کی دستاویزات تصدیق کے لیے بھیجی جاتی تھیں وہاں اس کے گم ہوچکے پاسپورٹ کے آخری صفحے پر لکھا باپ کا نام اور تھانے کے ریکارڈ کے مطابق دونوں نام آپس میں نہیں ملتے تھے۔ جس کی وجہ سے تھناول کو کلیئرنس نہیں مل پاتی تھی۔ یوں اس کی ایمنسٹی کی درخواست منسوخ کر دی جاتی تھی۔

تھناول کو اب واپس جانے کی اجازت کیسے ملی؟

تھناول کی مدد دو سماجی کارکنوں اے کے  مہادیون اور چندرا پراکاش نے کی۔ مہادیون نے نجی خبررساں ادارے گلف نیوز کو بتایا کہ جب وہ تھناول سے ملا تو وہ بہت بری حالت میں تھا، اس کے پاس کورونا وبا کےباعث کوئی نوکری نہیں تھی، وہ 20 سال سے اپنے گھر نہیں گیا تھا اور اپنے بیوی بچوں کو نہیں دیکھا تھا۔ اور نہ ہی اس کے کا کوئی کریمنل ریکارڈ تھا۔ اس لیے مہادیون نے تھناول کو اپنے گھر میں پناہ دینے کا فیصلہ کیا اور پھر اس کے لیے ضروری دستاویزات کا بندوبست کیا۔

مہادیون اور پراکاش نے تھناول کے باپ کے نام میں موجود غلطی کی درستگی کے لیے بھارتی سفارت خانے اور تھناول کے گاؤں کے مقامی محکموں سے رابطہ کیا۔

اس سب میں بھارتی سفارت کار پاون کپور نے ذاتی دلچسپی لی اور تھناول کے نام میں موجود غلطی کو ٹھیک کروایا گیا اور اس کے لیے ایمرجنسی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔

یوں تھناول 20 سال بعد اپنے ملک واپس جانے کے قابل ہوا۔

تھناول واپس جاننے کا سن کر خوش ہے کیونکہ اب وہ اپنے بیوی بچوں سے مل پائے گا۔ خاص طور پر اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سے مل پائے گا جو اس کے ابوظہبی آںے کے بعد پیدا ہوئی تھی۔

Source: Gulf News

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button