متحدہ عرب امارات

یو اے ای: نوکری سے برطرفی کے بعد کمپنی کا کریڈٹ کا استعمال کر کے فراڈ کرنے والے مینیجر پر 10 ہزار درہم جرمانہ عائد

 

خلیج اردو آن لائن:

نوکری سے نکالے جانے کے بعد کمپنی کا کریڈٹ کارڈ استعمال کر کے 40 ہزار درہم کا غبن کرنے والے مینجر کو راس الخیمہ کی ایک عدالت نے الزام ثابت ہونے کے بعد 10 ہزار درہم جرمانے کی سزا سنادی۔

پبلک پراسیکیوشن نے الزام عائد کرتے ہوئے مینجر پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے غبن  کرنے اور کریڈٹ کارڈ کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا تھا۔

تاہم، عدالت نے مدعاعلیہ کو کریڈٹ کارڈ کو نقصان پہنچانے کے الزام سے بری قرار دیا ہے۔

مقدمے کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

عدالتی ریکارڈ کے مطابق مینجر نے کمپنی کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرکے 40 ہزار درہم نکلوائے۔ اور کریڈٹ ایک سیف میں رکھا گیا تھا اور وہ سیف اسی کمپنی میں بطور سپروائزر کام کرنے والی اس کی بیوی کی نگرانی میں ہوتی تھی۔

پولیس کی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں میاں بیوی نے کمپنی کی طرف سے دی گئی اشیاء واپس کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس میں وہ کریڈٹ کارڈ بھی شامل تھا جو اس کی بیوی کو دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مینجر کی بیوی کو بھی بھروسہ توڑنے کے الزام میں نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

مینجر کے اے ٹٰی ایم سے پیسے نکالنے کی ویڈیو ثبوت مل جانے کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اور دوران تفتیش مدعاعلیہ نے اقبال جرم کر لیا۔ مدعاعلیہ کا کہنا تھا کہ اس نے کمپنی کریڈٹ کارڈ سے پیسے کمپنی کے ایک عرب ملازم کی تنخواہ ادا کرنے کے لیے نکالے تھے، کیونکہ کمپنی نے کئی مہینوں سے اسکی تنخواہ ادا نہیں کی تھی۔

مینجر نے موقف اختیار کیا کہ اس نے نا تو کریڈٹ کار چرایا ہے نہ ہی رقم بلکہ وہ اپنی نوکری کے چلے جانے تک اپنی ذمہ داری نباہ رہا تھا۔

مدعاعلیہ کا مزید کہنا تھا کہ  ” اسے جب بینک کی طرف سے بتایا گیا کہ کارڈ کینسل کیا جا چکا ہے تو اس نے کارڈ کو توڑ دیا اور کمپنی اس تمام لین دین سے آگاہ تھی”۔

وکیل دفاع نے بھی موقف اختیار کیا کہ اس کا موکل بے قصور ہے اور جب ٹرانزیکش ہوئی تھی تب کمپنی نے کوئی چارہ جوئی نہیں کی۔ مزید برآں، پولیس تفتیش کے دوران کسی ترجمان  کی خدمات حاصل نہیں کیں گئی تھیں۔ وکیل دفاع نے عدالت سے اپنے موقف کو با عزت بری کرنے کی درخواست کی۔

تاہم، عدالت نے مینجر کو 40 ہزار درہم کے غبن میں قصوار قرار دیا اور اس پر 10 ہزار درہم جرمانے سزا عائد کردی۔

Source: Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button