پاکستانی خبریں

عوامی ورکرز پارٹی کے بابا جان و دیگر اسیران کی سزائیں معطل، نو برس بعد رہائی

خلیج اردو
28 نومبر 2020
غذر: گلگت بلتستان کی حکومت نے وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والے عوامی ورکرز پارٹی کے ترقی پسند رہنما بابا جان سمیت ان کے دیگر ساتھیوں کی سزائیں معطل کرتے ہوئے انھیں جیل سے رہا کر دیا ہے۔

جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب رہا ہونے والوں میں بابا جان اور ان کے دو ساتھی افتخار کربلائی اور شکر للہ بیگ عرف مٹھو شامل ہیں ۔ جس کے بعد انکے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ بخیریت گھر پہنچ چکے ہیں۔

بابا جان کے بھائی اور انکی رہائی کی تحریک کی قیادت کرنے والے امین جان نے خبررساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ یہ رہائیاں دراصل وادی ہنزہ میں اکتوبر کے ماہ میں سات روزہ دھرنے کے بعد ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہیں۔ گلگت بلتستان کی نگران حکومت کی جانب سے بابا جان سمیت دیگر 14 سیاسی کارکنان کی 30 نومبر سے پہلے رہائی کے حوالے سے کروائی گئی یقین دہانی کے بعد ہی احتجاجی دھرنا ختم کیا گیا تھا۔

سانحہ ہنزہ اور سیاسی قیدیوں کا پس منظر کیا ہے؟

چار جنوری 2010ء کو ہنزہ تحصیل کے گاؤں عطا آباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں مٹی کا تودہ گرنے کے باعث دریائے ہنزہ میں پانی کا بہاؤ رک گیا تھا جس کے نتیجے میں ایک جھیل معرضِ وجود میں آگئی تھی اور پہاڑی کا بڑا حصہ گرنے سے دریائے ہنزہ کا بہائو 5 ماہ کیلئے رک گیا۔ اس واقعہ میں بیس کے قریب افراد جاں بحق جبکہ کئی گاؤں زیر آب آنے سے 6 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہوئے تھے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماء بابا جان اور قراقرم نیشنل موومنٹ کے رہنما افتخار حسین کربلائی اور ان کے ساتھیوں نے متاثرہ افراد کی بحالی اور مدد کیلئے مہم چلائی ۔اس وقت کے وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے جب ہنزہ کا دورہ کیا تو ان کے دورے کے موقع پر متاثرین نے احتجاجی مظاہرہ کیا جو بعد میں پرامن نہ رہا اور پرتشدد شکل اختیار کر گیا۔

احتجاج کے دوران پولیس کی مبینہ فائرنگ سے دو مقامی افراد جاں بحق ہوئے جس کیخلاف شدید احتجاج ہوا۔ اس احتجاج کی قیادت بابا جان اور افتخار کربلائی کر رہے تھے۔ جس کی پاداش میں مقامی انتظامیہ نے بابا جان اور افتخار حسین کربلائی سمیت کئی افراد کیخلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے اور ان مقدمات کی وجہ سے 2011ء میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

دو سال بعد گلگت بلتستان کے چیف کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا تاہم 2014ء میں ضمانت منسوخی کے بعد ایک بار پھر انہیں گرفتار کیا گیا۔ دوہزار انیس میں مقامی عدالت نے تین مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر انہیں 90 سال قید کی سزا سنائی۔ یہ سزا ریاستی تاریخ میں کسی بھی فرد کو سنائی جانے والی سب سے طویل سزا ہے۔

جیل سے انتخابی معرکہ کیسے لڑا؟

جب 15 جون 2015ء کو گلگت بلتستان اسمبلی کے عام انتخابات ہوئے تو بابا جان نے عوامی ورکرز پارٹی کے امیدوار کے طور پر جیل سے انتخاب لڑا۔ اس نشست پر مسلم لیگ نون کے میر غضنفر علی 8062 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ بابا جان 4597 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ ان کی حمایت میں جو ریلیاں نکلیں، ان میں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی تیسرے اور تحریک انصاف چوتھے نمبر پر رہی۔ بابا جان کے کاغذات نامزدگی اس لئے ممنظور کیے گئے کہ وہ ایک انڈر ٹرائل قیدی تھے۔ بعد میں میر غضنفر کو جب گورنر گلگت بلتستان لگایا گیا تو یہ نشست خالی ہو گئی اور ضمنی الیکشن میں بابا جان نے ایک بار پھر کاغذات نامزدگی جمع کرائے، تاہم اس بار انکے کاغذات کو مسترد کیا گیا اور انہیں الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا۔

2020ء کے الیکشن میں ایک بار پھر بابا جان نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، جسے اس بار بھی مسترد کیا گیا اور انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

سیاسی اسیروں کی رہائی کیلئے دیا جانے والا تاریخی دھرنا

6 اکتوبر 2020ء کو ہنزہ علی آباد میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کیلئے تاریخی دھرنا دیا گیا یہ دھرنا اس حوالے سے بننے والی اسیران رہائی کمیٹی ہنزہ کی جانب سےدیا گیا تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ یہ دھرنا کئی روز تک جاری رہا اور ملکی و غیر ملکی میڈیا میں معاملہ کو خوب اجاگر کیا گیا۔ اس احتجاج کے بعد بالآخر حکومت نے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کرتھا جو بالاخر بابا جان اور افتخار حسین کربلائی کی رہائی پر مکمل ہوا۔

Source: BBC Urdu

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button