سٹوری

کالم: دوستی اور اعتماد کی بنیاد پر تعلقات بڑھاتے یہودی اور مسلمان

 

یہ کالم نجی خبررساں ادارے خلیج ٹائمز میں نسلی تفہیم سے متعلق کام کرنے والی ایک فاؤنڈیشن کے صدر ربی مارک شنئیر کی جانب سے لکھا گیا تھا۔ جس کا اردو ترجمعہ پیش خدمت ہے:

صدیوں سے چلے آنی والی روایتی سوچ کے برعکس دنیا میں یہودیوں اور مسلمانوں کے علاوہ کوئی بھی دو عقائد ایسے نہیں ہیں جن میں مسلمانوں اور یہودیوں کے عقائد سے زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔

مجھے اس حقیقت کے بارے میں 2006 میں پتہ چلا جب میں نیویارک شہر میں ایک مسلم سکول کے دورے پر گیا اور وہاں اساتذہ اور طالب علموں کے ساتھ یہودیت اور اسلام کے درمیان مماثلت پر زندگی کو بدل کر رکھ دینے والی گفتگو کی۔

متعلقہ مضامین / خبریں

اور ہماری گفتگو میں اسلام اور یہودیت کے درمیان سامنے آنے والی مماثلت میں لباس اور برتاؤ میں عاجزی اور حیاء اختیار کرنے پر زور دینا اور ضرورت کے وقت خیرات کے ذریعے دوسروں کی مدد کرنا، جسے اسلام صدقہ کا نام دیا گیا جبکہ  یہودیت میں ضداقہ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں مذاہب کے درمیان جو مماثلت سامنے آئی اس میں ایک ہی طرح کی خوراک، خطنے کروانا، شادی اور جنازے کی رسومات سمیت دیگر رسم و رواج شامل ہیں۔

یورپ، امریکہ، خلیج اور دیگر دنیا کے اماموں، کمیونٹی کے راہنماؤں اور بادشاہوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے مجھے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھے طریقے جاننے کا موقعہ ملا، اس دوران میں سیکھا کہ ہمارے عقائد زندگی کے لیے عقیدت رکھتے ہیں، انصاف قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور انسانوں کے ماضی سے قطع نظر وہ وہ انسانی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔

میں نے جانا کہ ہمارے لوگ ایک مشترکہ تاریخ رکھتے ہیں جو ہمارے مشترکہ اجداد ابراہم یا حضرت ابراہیم تک جاتی ہے۔

2013 میں میں نے اپنی کتاب سنز آف ابراہم میں لکھا تھا کہ یہودیت اور اسلام کسی بھی اجنبی کو خوش آمدید کہنے کو اخلاقیت کا درجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ اسلام اور یہودیت دونوں میں اجنبی سے اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اگر کوئی اجنبی آئے تو اسے اپنا فرد سمجھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس لیے مسلمان اور یہودی انکے ہاں آنے والے اجنبی کو اپنا سمجھتے ہیں اور اسکی مہمان نوازی ایسے ہی کرتے ہیں جیسے کسی اپنے کی کرتے ہیں۔

آج ہم متحدہ عرب امارات کی روشن خیال اور مہمان نواز حکومت کے بدولت خلیج میں یہودی کمیونٹی کو ایک نئی زندگی ملتے اور اجنبی کے ساتھ اچھے سلوک کی روایت کو عملی طور پر دیکھ رہے۔ اس میں یوٹوپیئن ابراہیمیک فیملی ہاؤس پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر ابو ظہبی میں ایک چرچ اور مسجد کے ساتھ ایک نیا عبادت خانہ کھولنا بھی شامل ہوگا جو افہام و تفہیم، باہمی وجود اور امن کی ایک طاقتور علامت بن جائے گا۔

مزید برآں دونوں مذاہب دوسرے مذاہب کی تقریم کی ہدایت کرتے ہیں، جس کی کچھ مثالیں ہم یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی اس دوستی کے باعث دیکھ چکے ہیں۔ جیسا کہ یو اے ای کا ملک بھر کے ہوٹلوں کے لیے اسرائیلی کوشر کھانا بطور ڈش بنانا لازم قرار دے دیا اور ایمریٹس نے اعلان کیا ہے کہ وہ یو اے ای سے بیرون ملک جانے والی پروازوں پر کوشر فوڈ مسافروں کے لیے پیش کریں گے۔

مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان باہمی تعلقات کےاس تاریخی موقعے پر ہم اس احساس کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو یہ دونوں معاشرے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حاصل نہیں کر سکتے۔

یاد رہے کہ ان دو مذاہب کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے یہ پہلا موقع نہیں ہے، اس سے پہلے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق بھی اپنے باپ حضرت ابراہیم کو دفنانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔  اور ہم دعا کرتے ہیں اکیسویں صدی کے مسلمان اور یہودی اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلیں اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور تعاؤن کو بڑھائیں۔

Source: Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button