سٹوریکالم

سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ یک جہتی کی تاریخ

خلیج اردو
تحریر:علی عوض اسیری
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مشترکہ تاریخ اور باہمی مفادات میںایک دوسرے کیساتھ گہرے جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک اسلام کے لیے گہری عقیدت رکھتے ہیں، سعودی عرب عقیدے کا گڑھ ہے اور پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر معرض وجود میں آیا ہے۔ ان کے رہنماؤں کے درمیان ذاتی تعلقات نے یکجہتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ممالک حالیہ برسوں میں نازک حالات میں بھی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں پاکستان مشکل معاشی اور سیکورٹی حالات کے درمیانایک مشکل سیاسی تبدیلی سے گزرا ہے ۔ اس ماہ کے اوائل میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں مخلوط حکومت کی تشکیل ہوئی ہے۔ ملک نے ایک نیا صدر بھی منتخب کیا ہے اوراس کے سویلین اور فوجی رہنما موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے کافی پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے کی طرح سعودی مملکت کی قیادت ترقی پسند مستقبل کے لیے پاکستان کی موجودہ جدوجہد کی حمایت کرتی ہے۔

پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کییکجہتی کا تازہ ترین اظہار گزشتہ ہفتے کے دوران اس وقت ہوا جب سعودی مملکت کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے اسلام آباد کا ایک روزہ دورہ کیا۔ وہ مسلح افواج کییوم پاکستان پریڈ (جو ہر سال 23 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے 1940 میںقرارداد لاہور کی منظوری کے موقع پر منعقد کی جاتی ہے) کے مہمان خصوصی تھے۔ انہیں صدر پاکستان کی جانب سےنشان پاکستان جو پاکستان کا سب سے بڑے سول اعزازسے نوازا گیا۔

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے جس کا آغاز 1967 میں ایک دفاعی پروٹوکول پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس کا دائرہ کار مملکت میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے افسروں کے لیے پاکستان کی ملٹری اکیڈمیوں میںتربیت کے مواقع کی فراہمی تک محدود تھا۔۔ 1982 میں دستخط کیے گئے ایک اور دفاعی پروٹوکول نے اسے مزید وسعت دی جس میں دفاعی مقاصد کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت، دفاعی پیداوار اور اشتراک اور مشترکہ مشقوں کے لیے مملکت میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی شامل تھی۔

اس کے بعد اب تک دونوں ممالک کے فوجی سربراہان اور دفاعی حکام سرگرمیوں اور اسٹریٹجک پالیسیوں کو مربوط کرنے کے لیے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ اس بات چیت نے ماضی قریب میں اہمیت اختیار کر لی کیونکہ دفاعی پیداوار میں خود انحصاری کا حصول ولی عہد محمد بن سلمان کے سعودی ویژن 2030 پلان کا ایک اہم ستون ہے۔ باہمی فوجی تعاون اب انسداد دہشت گردی کے عالمی مسائل پر محیط ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف 2017 سے 42 مسلم ممالک کے اسلامی ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کے فوجی کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ریاض کے دورے کے دورانپاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ولی عہد شہزادہ سے ملاقات کی اور سیکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے شہزادہ خالد سے بھی ملاقات کی اور انہیںیوم پاکستان کی تقریبات میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت دی۔ اپنے دورہ پاکستان کے دوران شہزادہ خالد نے آرمی چیف کے ساتھ ساتھ نو منتخب صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے بعد سرکاری میڈیا نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مضبوط تاریخی اور برادرانہ تعلقات ہیں اوردونوں برادرممالک  ہمیشہ ایک دوسرے کے خیر خواہ رہیں گے۔”

شہزادہ خالد کا بیان سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں تاریخ کی پائیدار طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی میں ماضی اکثر حال میں گونجتا ہے۔ میں ماضی کے چند اہم واقعات کا حوالہ ذیل میں دینا چاہتا ہوں:

اپریل 1940 میں، قرارداد لاہور کی منظوری کے ایک ماہ کے اندر سعودی ولی عہد سعود بن عبدالعزیز السعود نے کراچی کا دورہ کیا۔ ایم ایچ اصفہانی، ایم اے مانیار، اور کریم بھائی ابراہیمسمیت مسلم لیگی شخصیات نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ سودی ولی عہد کے ساتھ ان کے پانچ بھائیوں سمیت ایک بڑا وفد بھی تھا۔ سودی ولی عہد کے پانچ بھائیوں میں سے شہزادہ فیصل اور شہزادہ فہد سعودی عرب کے مستقبل کے بادشاہ بننے والے تھے۔

1943 میں مسلم اکثریتی ریاست بنگال ایک تباہ کن قحط کی زد میں آ گئی جس پر مسلم لیگ کے قائد اور بانی پاکستان محمد علی جناح نے مسلم لیگ بنگال ریلیف فنڈ قائم کیا۔ شاہ عبدالعزیز آل سعود پہلے غیر ملکی رہنما تھے جنہوں نے بانی پاکستان کی اپیل پر اس فنڈ میں 10,000 پاؤنڈ کے  شاندار عطیہ کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کی بھرپورمدد کی ۔

نومبر 1947 میں قیام پاکستان کے ٹھیک دو ماہ بعد محمد علی جناح نے اپنا خصوصی ایلچی ملک فیروز خان نون کو سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں دیگر مسلم ممالک کی طرف بھیجا۔ شاہ عبدالعزیز نے ان کا ذاتی طور پر استقبال کیا اور اس وفد کو کراچی واپسیکےلیئے ڈھہران لے جانے کے لیے اپنے شاہی طیارے کی پیشکش بھی کی۔

شاہ عبدالعزیز کے جانشینوں نے دونوں ممالک کے درمیان منفرد بھائی چارے کےرشتے اور سعودی عرب کی نظر میں پاکستان کی بنیادی قدر کی مسلسل حمایت کرتے ہوئے اس روایت کو زندہ رکھا۔

مثال کے طور پر اپریل 1954 میں سعود آباد نامی ہندوستانی مسلم تارکین وطن کے لیے سعودی عرب کی مالی اعانت سے چلنے والی ہاؤسنگ کالونی کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی جانے سے پہلے شاہ سعود نے پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا: "ہمیں خوشی ہوگی اگر پاکستان مضبوط ہو جائے گا، کوئی شک نہیں پاکستان کی طاقت ہماری طاقت ہے اور اگر یہودیوں نے سوعدی عرب کی پاک سرزمین پر حملہ کیا تو پاکستان اپنے وعدے کے مطابق دفاع کرنے والوں کے سامنے ہوگا۔

1960 کی دہائی میں شاہ فیصل کی قیادت میں فوجی تعاون کی مضبوط بنیادیں رکھی گئیں۔ کراچی میں ایک ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے (جس شہر سے وہ واقف تھے، 1943 میں تشریف لائے تھے)، شاہ فیصل نے کہا: "اگر ہم نے اس اسلامی ملک کے لیے برادرانہ جذبات اور تعاون کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کیبنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مذہب اورعقیدہ ہم سے اس اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔”

1970 کی دہائی میں اقتصادی اور فوجی تعاون میں توسیع دیکھنے میں آئی۔ سعودی عرب نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کی سفارتی اور عسکری حمایت کی۔ 1974 میں لاہورجہاں پراو آئی سی کی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہوا کیونکہ اس کانفرنس کے انعقاد نےمشرقی بازو کی شکست کے بعد پاکستان کے عوامی حوصلے کو بلند کرنے میں مدد کی۔ سعودی مملکت نے اس دہائی کے دوران پاکستان کو ملنے والی غیر ملکی امداد میں تقریباً 1 بلین ڈالر کا بڑا حصہ بھی دیا۔

1980 کی دہائی میں سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان میں سوویت قبضے کے خلاف امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا۔ اپنییادداشت "دی افغانستان فائل” میں شہزادہ ترکی الفیصل نے 1989 میں سوویتیونین کو شکست دینے کے لیے سعودی عرب اور پاکستان کے انٹیلی جنس تعاون کو انتہائی دلچسپ بیانقرار دیا۔ دسمبر 1980 میںولی عہد شہزادہ فہد نے اعلان کرنے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا اور اپنے بیان میں کہا کہ: "پاکستان کے اندرونی معاملات میںکسی بھی قسم کی مداخلت  سعودی مملکت کو نقصان پہنچانا تصور کیا جائے گا۔

مئی998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سعودی عرب  پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا کیونکہ پاکستان کو اس وقت ایٹمی تجربات کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ اس وقتسعودی مملکت نے اقتصادی پابندیوں کے تباہ کن اثرات کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کی ہنگامی مالی امداد کی اور موخر ادائیگیوں پر تیلبھی فراہم کیا۔

میں 9/11 کے المناک واقعات سے بہت پہلے 2001 میں مملکت کے ایلچی کے طور پر پاکستان پہنچا اور 2009 میں اسلام آباد میں اپنی سفارتی مدت مکمل کی، اس وقت افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے عروج پر تھی۔ اپنی قیادت کی ہدایات اور رہنمائی کے ساتھ، میں نے اس نازک دور میں پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے سویلین اور فوجی رہنماؤں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھا تھا۔

2005 میں جب آزاد جموں و کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو سعودی عرب پہلا ملک تھا جس نے متاثرین کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لیے فضائی راہداری قائم کی۔ دو جدید ترین فیلڈ ہسپتال قائم کئے جو کہ میڈیکل اور نرسنگ سٹاف اور جراحی کے آلات سے لیس تھے اس سانحے کے دوران 80,000 سے زیادہ معصوم جانوں کا ضیاع ہواتھا۔

2011 کی نام نہاد عرب سپرنگ کے بعد عرب دنیا کو بے مثال بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم انتہائی مستعدی اورمضبوط عزم کے ساتھ سعودی مملکت کی موجودہ قیادتنے اس عرب سپرنگ کے تباہ کن مضمرات کے باوجود کامیاب رہی اور پورے مشرق وسطیٰ میں علاقائی مفاہمت اور ترقی کے عمل کی قیادتکی۔ تاہم اس مشکل دور میں پاکستان کے ساتھ یکجہتی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل فیچر رہی ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اہم وژن 2030 کے ذریعےسعودی مملکت کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ اپنے علاقائی اور عالمی پروفائل کو ازسرنوتعین کرتے ہوئے بے مثال سماجی و اقتصادی کمالات حاصل کر سکے۔ سعودی ولی عہد کو جنوبی ایشیا کے خطے کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ایک نیا نقطہ نظر شروع کرنے کا سہرا بھی جاتا ہے۔ سعودی ولی عہد اب پاکستان کی مالی مدد کی بجائے  سرمایہ کاری  کےذریعے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی طرف دلچسپی رکھتے ہیں۔

سعودی ولی عہد نے 2019 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اورتوانائی اور کان کنی کے شعبوں میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے انہوں نے ریاض میںیکے بعد دیگرے پاکستان کے سویلین اور عسکری رہنماؤں سے ملاقات کرتے ہوئے پاکستان کے لیے مملکت کی مستقل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اب پاکستان کے لیڈران اور عوام کو سیاسی طور پر متحد ہونے اور ان کے وژن 2030 کے پیش کردہ عظیم معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانے کیشدید ضرورت ہے۔

اس ہفتے شہزادہ خالد کی جانب سے یوم پاکستان کی تقریبات کے دوران سعودی عرب کی طرف سےیکجہتی کا مظاہرہ پاکستانی قوم کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے کوششیں کرنا چاہیے کیونکہ ہماری مشترکہ تاریخ ایک ایسی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے جس کے ذریعے امن ، خوشحالی اور ترقی کے حامل مستقبل کی تعمیر کے لئے سخت کوششں کی شدید ضرورت ہے۔

علی عوض اسیری نے 2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور سعودی عرب پاکستان تعلقات کو فروغ دینے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہلال پاکستان سے نوازا گیا۔ انہوں نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور کتاب "دہشت گردی کا مقابلہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا کردار” (آکسفورڈ، 2009) کی تصنیف کی۔ وہ ریاض کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ فار ایرانی اسٹڈیز رسانہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن ہیں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button