متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات : مشہور بس حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کس کرب میں ہیں اور حکومت سے کیا مطالبہ کرتے ہیں ؟

خلیج اردو
28 فروری 2021
دبئی : دبئی میں المناک بس حادثے میں 17 افراد ہلاک ہوئے دو برس گزر گئے اور اس صدمے سے لواحقین ابھی تک نکل نہیں پائے۔ لواحقین اس علمناک کرب سے نکل نہیں پارہے ۔

ان لواحقین نے خلیج ٹائمز سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ قانونی امور کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ وہ کافی مشکل سے اپنا گزارہ کررہے ہیں۔

سپنا مولچندان نے اپنی چھوٹی بہن روشنی کو اس حادثے میں کھویا ہے۔ جب ایک بس دبئی میں پل پر سے گزرتے ہوئے گاڑیوں کو روکنے والے بیریئرز سے جاٹکرائی اور جون 2019 کو یہ حادثہ پیش آیا۔ اس حادثے کے بعد پہلی دفعہ 29 سالہ سپنا دبئی آئی ہے۔

26فروری کو سپنا ہندوستان واپس لوٹیں ، انہوں نے بتایا کہ اس نے حادثے کی جگہ کا دورہ کیا جو ایک مشکل کام تھا لیکن میں نے ہمت بڑھائی اور جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ ابھی بھی وہاں موجود رکاوٹ کو دیکھ کر تکلیف ہوئی ہے۔

بھارت واپسی سے دو دن قبل جب انہوں نے اس سائٹ کا دورہ کیا تو اس وقت اپنی بہن اور دیگر متاثرین کی یادوں میں سپنا نے مشعل جلایا۔ انہوں نے کہا کہ اس راستے میں لگے بیئریر کو کسی اور مادے کے ساتھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی اور حادثہ پیش نہ آئے۔

بدقسمت بس عید کے وقفے کے بعد مسقط سے واپس آرہی تھی کہ ڈرائیور نے غلط موڑ لیا اور ایک ایسی لین میں بس جا ڈالی جو بسوں کیلئے نہیں تھی۔ وہ گاڑی حدرفتار سے تیز چلارہا تھا اور تیزرفتاری کی وجہ سے ڈرائیور وارننگ سائن بورڈ سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں بس میں سوار 15 مسافروں کی فوری طور پر موت ہوگئی ، جبکہ اس کے بعد دو اور مسافر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ اس سانحے میں بارہ ہندوستانی ، دو پاکستانی ، ایک عمانی ، آئرش خاتون ، اور ایک فلپائنی ہلاک ہوئے۔

جمعرات کے دن اس حادثے کا موجب بننے والے ڈرائیور کی سزا 7 سال قید سے کم کرکے ایک سال کر دی گئی ہے۔ دبئی میں عدالت عظمیٰ نے بھی ڈرائیور کو 3.4 ملین درہم بطور خون بہا اور 50 لاکھ جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے ڈرائیور کی ملک بدری کی سزا بھی منسوخ کر دی ہے۔

اس حادثے میں بہت سے لوگوں نے اپنے خاندان کے کمانے والوں کو کھو دیا ۔ اس حادثے میں ایک باپ اور اس کے بیٹے کی ہلاکت ( باپ چونکادوتھ (65) اور بیٹا نبیل عمیر (25) ) کے بعد فواز ابراہیم نے کہا کہ اس معاملے میں زیادہ تحریک نہیں چل پائی۔ میرے چچا (عمیر) نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ان کا خاندان حادثے کے بعد وہ کیرالا میں اپنے آبائی شہر واپس چلے گئے ہیں ۔ وہ معاشی طور پر مشکل صورتحال میں ہیں اور خون بہا کے پیسوں سے واقعی ان کی مالی مدد ہوپائےگی۔

فواز نے کہا کہ ان خاندانوں کی کچھ بینک واجبات ہیں اور ان کی صرف مالی مدد ان کی بیٹی کے شوہر سے ہے۔ سپنا کی طرح ، فواز نے بھی کہا کہ ان کے اہل خانہ نے بھی ڈاکٹر تعین نہیں کیا ہے اور وہ اس بارے میں بے یقینی کا شکار ہیں کہ ان سے قانونی امداد کہاں سے حاصل کی جائے اور اپنے کیس کو لڑنے کیلئے کس طرح آگے بڑھا جائے۔

اس حادثے میں سپنا کی کزن منیشا ٹھاکر اپنے شوہر وکرم سے محروم ہوگئیں اور منیشا کو ہندوستان واپس جانا پڑا اور اب وہ بے روزگار ہیں اور انہیں مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا وائرس نے اس کی حالت مزید خراب کی ہے۔

اپنی چھوٹی بہن روشنی کو کھونے والی سپنا مولچندانی نے ہندوستان کے دبئی میں قونصل جنرل ڈاکٹر امان پوری سے ملاقات کی جنھوں نے اس معاملے میں مدد اور مشاورت کا وعدہ کیا۔

قونصل خانہ حکام نے خلج ٹائمز کو بتایا کہ وہ اس معاملے کی پیروی کررہے ہیں اور لواحقیقن کو درکار ضروری مشورے اور رہنمائی فراہم کررہے ہیں۔ قونصل خانہ متائثرہ خاندانوں کیلئے قانونی مشاورت کی ٹیم مہیا کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا قونصل خانہ میں متائثرہ لواحقین میں سے ایک کیلئے پہلے ہی قانونی مشاورت کا اہتمام کیا گیا ہے جس نے کیس کی پیشرفت پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے یہاں کادورہ کیا ہے۔

متائثرہ فرد سے ملاقات میں انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ قونصل خانہ ہر ممکن مدد فراہم کرتا رہے گا۔ ہم پرامید ہیں کہ متاثرین کے اہل خانہ جلد ہی اس فیصلے پر عمل درآمد کرائیں گے جس کے بعد وہ معاوضے کے لئے فائل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button