متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی بینک ڈیفالٹر ہونے کی بعد امارت سے باہرنہیں جا سکتے

اگر کسی پاکستانی کے وطن واپس جانے کے بعد اسے ڈیفالٹر قرار دیا گیا تو واجبات ادا کیے بغیر متحدہ عرب امارات واپس نہی آسکتا.

جو پاکستانی روزگار کی غرض سےمتحدہ عرب امارت آئے ہیں، اور امارت کے بینکوں سے کریڈٹ کارڈز یا پرسنل لون حاصل کرتے ہیں، اگر انہیں قسطوں یا کریڈٹ کارڈ کے بلز کی مسلسل عدم ادائیگی کی وجہ سے ڈیفالٹر قرار دیا گیا ہے تو ایسی صورت میں وہ وطن واپس نہیں جاسکتے، انہیں ایئر پورٹ پر ہی جانے سے روک لیا جائے گا۔ تاہم جو پاکستانی اس وقت پاکستان میں موجود ہے اوراگر انہیں بعد میں ڈیفالٹر قرار دیا جائے تو جب تک وہ اپنے واجبات ادا نہیں کریں گے ، انہیں امارات میں داخل ہونے کی اجازت نہی دی جاۓ گی ۔

متحدہ عرب امرت امارات میں بینک کی جانب سے قرضہ اور کریڈٹ کارڈز دیتے وقت ہر شخص سے بطور گارنٹی چیک رکھوائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بینک کے قرضے کی چھ اقساط جمع نہ کرائے اور کریڈٹ کارڈ بل کی مسلسل تین اقساط کے عدم ادائیگی کے وجہ سے اسے ڈیفالٹر قراردے دیا جاتا ہے، جس کے بعد بینک اس کا رکھوایا گیا چیک کیش کروانے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس شخص کا دیا گیا چیک باؤنس ہو جائے تو پھر اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہو جاتی ہے اور اس کے امارات سے باہر جانے پرپابندی لگا دی جاتی ہے۔

ضمانتی چیک کی رقم دو لاکھ درہم سے کم ہونے کی صورت میں دو ہزار درہم سے دس ہزار درہم کے درمیان جرمانہ ہوتا ہے۔ جرمانے کی رقم ادا کرنے کے بعد امارات سے باہر سفر کرنے پر عائد پابندی ختم ہو جاتی ہے۔ اماراتی قوانین کے مطابق بینک کا چیک ڈس آنر ہونے کی صورت میں جیل یا جرمانے کی سزا بھُگتنا ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص امارات سے باہر چلا جاتا ہے اور بعد میں اسے قسطوں یا کریڈٹ کارڈز کے بل کی عدم ادائیگی پر ڈیفالٹر قرار دیا جاتا ہے تواس کی امارات واپسی تبھی ممکن ہو سکتی ہے، اگر وہ واجب الادا رقم ادا کر دے، یا بینک سے رابطہ کر کے سیٹلمنٹ کروا کے مخصوص رقم جمع کروا دے۔ورنہ بینک کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کر کے نادہندہ کے امارات واپس آنے پر پابندہ لگوائی جا سکتی ہے۔

Source : Khaleej Times

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button