عالمی خبریں

آرامکو معاہدہ پاکستان کیلئے سعودی سپورٹ کی ایک مثال ہے

خلیج اردو
تحریر:جمال بن حسن الحربی
ریاض:آرامکو کمپنی کی حالیہ انٹری  سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کے ماحول کی عکاسی کرتی ہے، جس کی نمائندگی پاکستان گیس اینڈ آئل کمپنی لمیٹڈ (GO) میں 40 فیصد حصص حاصل کرنے کے حتمی معاہدے کے ذریعے کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں عدم استحکام کی وجہ سے کمپنیاں پاکستان سے نکل رہی ہیں۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ تاریخ دونوں برادر ممالک کے درمیان اس تعلقات کی مضبوطی اور مملکت کی طرف سے فراہم کی گئی زبردست حمایت کی بہترین گواہ ہے۔

پاکستان میں سابق سفیر محترم ڈاکٹر علی عواد عسیری کے ایک مضمون کے مطابق جو سعودی اخبار الشرق الاوسط میں 23 رمضان 1443ھ بمطابق 26 اپریل 2022 کو شائع ہوا تھا ۔ محترم سفیر 2001 سے 2009 عیسوی تک اسلام آباد میں بطور سفیر اپنی سفارتی زندگی کا طویل ترین دور گزارا، انہوں نے مملکت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے بارے میں تفصیلی تاریخی بیان دیتے ہوئے کہا، "مملکت نے پاکستان کی معیشت، اس کے استحکام اور عوام کی بھلائی  میں مسلسل کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ کہ یہ حمایت پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی شروع ہوئی تھی۔1940ء میں، جس سال "اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان کی قرارداد” جاری ہوئی، سعودی ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا، "مسلم لیگ” کے رہنماؤں نے مرزا ابوالحسن اصفہانی کی قیادت میں ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ . جب بنگال میں قحط پڑا تو 1943ء میں شاہ عبدالعزیز آل سعود نے ’’قائد اعظم‘‘ (محمد علی جناح) کی طرف سے مدد کی پکار پر دل کھول کر عطیہ دیا۔

 

1946 میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں،  شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے انڈین مسلم لیگ کے وفدجس کی سربراہی جناب مرزا اصفہانی کر رہے تھےکے لئے ایک استقبالیہ کا انعقاد کیا ، تاکہ وہ اپنےمقصد کے لیے حمایت حاصل کر سکیں۔ جیسا کہ عسیری نے وضاحت کی کہ مملکت اقوام متحدہ کے پہلے رکن ممالک میں شامل تھی، جس نے پاکستان کو تسلیم کیا، اور 1950 میں پاکستان کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا،1954ء میں سعودی فرمانروا شاہ سعود نے سابق دار الحکومت کراچی میں ایک ہاؤسنگ منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام شاہ سعود کے نام پر "سعود آباد” رکھا گیا۔ محترم سفیر نے تاریخیتعلقات کے اہم  سنگ میلوں کو اجاگر کیا، جس میں 1965 میں رونما ہونے والے واقعات بھی شامل تھے، جس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے معاملے میں سعودی عرب کی حمایت اور 1967 میں دوطرفہ دفاعی تعاون پروٹوکول کے مکمل کرنے میں پاکستان کی حمایتشامل ہے۔

 

1974 عیسوی میں شاہ فیصل کے دور میں تعلقات کی بڑی گہرائی دیکھنے میں آئی، جس کی نمایاں مثالیں اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد، فیصل آباد شہر اور کراچی کیشاہرا فیصل ہے۔ یہ دورپاکستانی افرادی قوت کے لئے سعودی لیبر مارکیٹ کی توسیع کا بھی دور تھا ، یہاں تک کہ یہتاریخی داستان 2018ء تک پہنچ گئی، جسمیںولی عہد کے پاکستان کے لیے 6 بلین ڈالر سے زائد مالیت کے ہنگامی اقتصادی ریلیف پیکج ، 3 ارب ڈالر قرض کی، اور 3.2 بلین ڈالر آئل کریڈٹ سہولیاتکے معاہدوں پر  دستخطوں کا مشاہدہ کیا گیا۔

 

یہ برادرانہ حمایت  دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور استحکام کے لیےسہارا تھا۔شاید ولی عہد کا یہ کہنا کہ "میں سعودی عرب میں آپ کا سفیر ہوں”، جو کہ 20 ارب ڈالر کے سب سے بڑے سعودی-پاکستان سرمایہ کاری کے معاہدے  سے پہلے ہوا تھا، جس میں آرامکو آئل ریفائنری کے لیے 10 بلین ڈالر بھی شامل تھے۔

آخر میں، میں محترم سفیر ڈاکٹر علی عواد عسیری کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مملکت اور پاکستان کے درمیان قائم تاریخی تعلقات میں ان اہم سنگ میلوں کی وضاحت کی اور اپنے متاثر کن سفارتی تجربے سے بھی آگاہ کیا۔ میں موجودہ سفیر محترم جناب نواف بن سعید المالکی کیکوششوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نئی اور اہم بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخی طور پر قائم سعودی اور پاکستان کے تعلقات وقت کے گزرنے اور ملکوں کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ سے متاثر نہیں ہوتے۔یہ رشتہ دو برادر ممالک اور اس کے عوام کے درمیان محبت اور احترام پر مبنی برادرانہ رشتہ ہے۔ قریبی تعلقات کی بدولت ایک قوم بن چکے ہیں جنہیں مشترکہ مذہب،مفادات اعتماد اور محبت نے جوڑا ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button