پاکستانی خبریں

تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اور تبدیلی سرکار کا خاتمہ ، بظاہر تو سب جیت گئے ہیں

خلیج اردو
تحریر : عاطف خان خٹک
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے عدم اعتماد کی تحریک کو ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے آئین سے متصادم اور غیر ملکی سازش قرار دے کر رولنگ کے تحت مسترد کر دیا ہے جس کے بعد مسٹر عمران خان نے ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب میں حکومت کی تحلیل کا اعلان کیا ہے۔

عدم اعتماد کی ناکامی کو پی ٹی آئی اپنی کامیابی اور اپوزیشن آئین شکنی قرار دے رہی ہے لیکن بادی النظر میں تو ہوا وہی ہے جو دونوں چاہتے تھے۔ یعنی اگر پی ٹی آئی جیسے تیسے اس تحریک کو ناکام بنانا چاہتی تھی تو اپوزیشن بھی عمران خان کو وزارت اعظمی سے ہٹانا چاہتی تھی۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے پر خوشی کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک دشمن آپ پر قتل کی نیت سے حملے کرے اور وہ کامیاب بھی ہو جائے لیکن آپ کے خیرخواہوں کو خوشی ہو کہ شکر ہے گولی سر کے بائیں طرف لگی ہے ، دائیں طرف نہیں۔

ایسے ہی اپوزیشن کا غم و غصہ بھی زیادہ جائز نہیں۔ اگر وہ مسٹر خان کو سلیکٹڈ اور اس کی حکومت کو جعلی کہتی رہی ہے اور اس کا خاتمہ چاہتی تھی تو اب ہوا تو وہی ہے، ناراضی کیوں ہے اتنی؟ ہاں کچھ خواب ادھورے ضرور رہ گئے ہیں لیکن بزرگوں سے سنا تھا کہ خواب بڑے دیکھوگے تو کامیابی کم سطح کی صحیح ، ملے گی ضرور۔

اپوزیشن کو یہ کامیابی تو مل چکی ہے کہ انہوں نے اس حکومت سے نجات پائی جو بقول ان کے ایک نااہل حکومت تھی اور اب ان کے پاس موقع بھی ہے کہ عوام کے پاس جا کر ایک ’’جائز‘‘ حکومت کا قیام ووٹ کی طاقت سے ووٹ کو عزت دیتے ہوئے قائم کرے۔

حکومت اور اپوزیشن کی خوشی اور غم ایک طرف لیکن اس سارے سیاسی بحران میں جو ایک بڑی کامیابی باحثیت قوم ہم نے حاصل کی ہے وہ اس طوفان کا ٹل جانا ہے جو وزیر اعظم خان کے عدم اعتماد کے ذریعے چلے جانے کے بعد ملکی سیاسی اور سلامتی حوالے سے ترتلی مچا سکتا تھا۔

ہم اس طوفان کا ٹریلر سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کیسے نوجوانوں کی جماعت پی ٹی آئی کے کارکان سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی کے اداروں پر اپنا غم و غصہ ان کے محض نیوٹرل رہنے پر ظاہر کررہے تھے۔

جو ملک کے موجودہ حالات ہیں، اس میں ہم ایک دوسرے ’’ کیوں نکالا ‘‘ ایپیسوڈ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جو کچھ ماضی میں ’’ووٹ کو عزت ‘‘ دینے کیلئے ہم نے دیکھا، وہ دوبارہ سے ری پیٹ ٹیلی کاسٹ ہوتا تو غیر ملکی سازش ہو نہ ہو اس گھر کو آگ گھر کے چراغ سے لگ جانی تھی۔

نوٹ : اس تحریر کا مواد لکھاری کا ذاتی تجزیہ ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button