پاکستانی خبریںسٹوری

گھریلو ماحول اور مسلکی انتشار

دین اسلام قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ایک مکمل دین ہے جس میں کسی قسم کے رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے

ازقلم فیض عالم ، کراچی ، پاکستان
دین اسلام قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ایک مکمل دین ہے جس میں کسی قسم کے رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ایک ایسا دین جو انسان کی راہنمائی کے لیے جامع اور آسان ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ایک ہی منظر اور بات کو ہر کوئی اپنے نظریے سے سمجھتا اور بیان کرتا ہے اللہ انسان کی اس فطرت سے بخوبی واقف ہے لہذا یہ بات نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی بتا چکے تھے کہ دین اسلام کو فرقوں میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔ اللہ کا حکم سب کے لیے یکساں ہے مگر ہر اہل علم اپنی سمجھ کے مطابق اسے سمجھے گا۔

حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ بندی کی پیشن گوئی بھی فرما دی تھی لیکن یہ بھی تلقین کی تھی کہ تفرقہ میں نہ پڑنا اسی طرح قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر فرمایا گیا کہ ایک مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے اور اسی طرح ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہیں رہ سکتا۔ان احادیث کے بیان کرنے کا مقصد یہاں یہ ہے کہ الگ الگ فرقوں سے تعلق ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کے بنیادی اصولوں اور عقائد و قوائد کو چھوڑ کر اپنے فرقے سے ایسی محبت کی جائے کہ کسی اور فرقے کا مسلمان واجب القتل لگے ۔۔

اسلام نے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے اور ہمدردی کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے بہترین اخلاق اپنانے کا حکم دیا۔ ہم الگ الگ فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ اسلام ایک گلدستے کی مانند ہے اور ہر فرقہ اس گلدستے کا حصہ ہے کیونکہ سب کے بنیادی عقائد تقریباً ایک ہیں۔ اللہ کے ایک ہونے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے، تمام انبیاء پر ایمان اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان وغیرہ بنیادی عقائد ہیں اور تمام فرقے ان عقائد کے پیروکار ہیں۔ جب سب مسلمان ہیں تو یہ نفرت انگیز فضہ کیوں؟

یہاں میں مسلکی تنضات کو بیان نہیں کر رہی اور نہ ہی کسی مسلک کی دل آزاری کرنا مقصد ہے۔ میں یہاں مسلمانوں کے درمیان نفرت انگیز ماحول کو بڑھانے والی جند وجوہات کو بیان کر رہی ہوں۔ مزکورہ بالا سوال کا جواب جو میں نے اپنے مشاہدے اور تجربے سے سمجھا ۔۔

پہلی وجہ دور حاضر کے چند علماء کا نفرت انگیز تقاریر
دوسری وجہ دشمنان اسلام کا مسلکوں کے مابین جھگڑوں کو ہوا دینے کے لیے انوسٹمینٹ
تیسری وجہ عام اور دین سے دور عوام میں علمی بحث کا ہونا جن میں اکثر فریقین حد سے اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ شاید دونوں کا ایمان ہی باقی نہ بچتا ہو۔
چوتھی وجہ یہ کہ گھروں میں بچوں کو ملنے والا منفی ماحول
میں اس وقت چوتھی وجہ پر زیادہ توجہ دلانا چاہوں گی کیونکہ بات یہاں گھریلو ماحول کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ گھر کا ماحول مسلکی انتشار کا باعث کیسے بنتا ہے آئیے چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے۔

امی ، امی برابر والوں کے ہاں نیاز ہوئی تھی وہ یہ کھانا دے کر گئے ہیں، بیٹا یہ آپ واپس دے آؤ آپ کو پتا ہے نہ پاپا نیاز کا کھانا لینے سے منا کرتے ہیں۔ ابو عید کی نماز کہاں پڑھنی ہے؟ وہی چلیں گے اپنی مسجد میں ۔۔۔لیکن ابو وہ ہر سال وہاں پہنچتے پہنچتے نماز نکل جاتی ہے۔ تو کیا ہوا تمہارا کیا مطلب ہے میں ان بے دینوں کے پیچھے نماز پڑھوں گا؟ امی سامنے سے قرآن خوانی کی دعوت آئی ہے ہم چلینگے نہ؟

پاگل ہو کیا اپنے ابو کے سامنے کہہ بھی مت دینا اتنا غصہ ہونگے یہ سب بدعت ہوتی ہے۔دیکھنا بیٹا اس دفع ایسا البم ریلیز ہورہا ہے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سارے دو نمبر والوں کو آگ لگ جائے گی۔۔۔ ارے بیگم زرا دیکھنا یہ نوحے کی آواز کہاں سے آرہی ہے ہمارے محلے میں تو کوئی نہیں ہے ایسا ۔۔۔ جی افتخار یہ دیکھیں شاید یہ نئے کرایہ دار ہیں ۔۔۔۔حلیم پک رہا ہے ان کے ہاں ۔۔۔۔ اچھا بچوں کو زرا دور ہی رکھنا ان سے ابا مرحوم منع فرماتے تھے۔ سب سے پہلے تو معذرت کیونکہ یہ کسی کا بھی دل دکھانے کے لیے نہیں لکھا گیا بلکہ ہمارے گھروں میں ہونے والے چند رویوں کی ہلکی سی جھلک ہے یہ دکھانے کیلئے کہ معاشرے میں گھریلو سطح پر مسلکی انتشار کیسے پروان چڑھتا ہے۔ ہم ان تمام مناظر کو ایک الگ طریقے سے دیکھتے ہیں۔

امی سامنے والوں کے ہاں سے نیاز کا حلوہ آیا ہے۔ بیٹا آپ اسے فرج میں رکھ دو کل ماسی آنٹی ائینگی انہیں دے دیں گے کیونکہ آپ کے پاپا منع کرتے ہیں نیاز کھانے کے لئے۔امی تو ہم یہ حلوہ انہیں واپس دے دیتے ہیں نہیں بیٹا بالکل نہیں آپ ایسا کبھی مت کرنا اس طرح ان کی دل آزاری ہو گئی۔ ابو عید کی نماز پڑھنے اپنی مسجد میں ہی چلنگے نہ نہیں بیٹا اس بار نہیں کیونکہ وہ مسجد بہت دور ہے اور ہمیں اٹھنے میں بھی دیر ہو جاتی ہے وہاں پہنچتے پہنچتے نماز نکل جاتی ہے اس لئے اپنے محلے کی مسجد میں ہی پڑھیں گے اخر ہم سب مسلمان ہیں اور با جماعت نماز پڑھنا زیادہ ضروری ہے۔

ابو وہ والی نعت لگائیں جس میں ٹن ٹنا ٹن کا زکر ہے ۔۔۔ بیٹا بہت بری بات ہے نعت کا مطلب معلوم ہے آپ کو نعت پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرنے کو کہتے ہیں ایک دوسرے پر فقرے کسنے کو نہیں ۔۔۔ آپ نعتیں سنو مگر اللہ کے رسول کے عشق میں کسی کو جلانے کے لیے نہیں۔ دیکھنا ذرا نوحے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے ہمارے محلے میں تو کوئی نہیں ہے ایسا۔۔۔ابو یہ سامنے والے کرائے دار آئے ہیں نئے ان کے ہاں حلیم پک رہا ہے۔ اچھا اچھا چلو اس بہانے گلی میں کچھ رونق ہوگئی۔۔

تصویر کو دوسرے رخ سے دیکھا تو کیسا لگا؟ آپ کو نہ سہی لیکن حقیقتاً آپ کے دل کو بہت اچھا لگا ہوگا۔۔۔۔ گھریلو سطح پر ہم اپنے بچوں کی اس حوالے سے مثبت انداز میں ترتیب کریں تو وہ جوان ہو کر دوسرے مسالک کے لیے نفرت پھلانے والے نہیں بنیں گے ۔ اپنے بچوں کو اپنا عقیدہ بے شک گھول کر پلا دیں لیکن ان کے معصوم دل اور دماغ میں نفرت نہ بھریں۔ دوسروں کے عقائد اور نظریات کو اس طرح پیش نہ کریں کہ بچہ اپنے علاوہ باقی سب کو مشرک اور کافر تصور کرے۔ آپ کے پاس پورا حق موجود ہے کہ آپ اپنے عقیدے کا تحفظ کریں اور اپنے بچے کو اپنے عقیدے کے مطابق پروان چڑھائیں مگر مسلمان ہونے کے ناطے اس سے بھی بڑی زمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو زمین میں فتنہ برپا کرنے والا نہ بنائیں۔

دین اسلام نے بہت مشکل ترین دور دیکھے ہیں لیکن یہ دین اسلام کا وصف ہے کہ ہر آزمائش میں پورا اترا اور ہر مشکل کا سامنا ڈٹ کر کیا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا ۔۔۔ لیکن اگر مسلمان نے کبھی مات کھائی ہے تو اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھوں۔۔۔ کسی اور کی اتنی ہمت نہیں یہ تو مسلمان ہی ہے جو دوسرے مسلمان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے۔آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔۔۔ میری اس بات کا ثبوت تاریخ میں میل جائے گا ۔

معزز اور محترم قرائین میں نہیں جانتی کہ آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن آپ میرے مسلمان بھائی ہیں۔خدارا اپنی نسلوں کو اس آگ سے نکالیں۔۔۔ دور حاضر میں اسلام کو ایک امت کی ضرورت ہے اپنے اپنے فرقوں کے جھنڈے اٹھا کر اسلام کے جھنڈے تلے آجائیں۔ ایک ہو جائیں دشمن کے مد مقابل۔ دین اسلام دور حاضر کی کربلا میں ہے اور آپ سے لبیک مانگ رہا ہے۔ آپ نا بھی آئے تو اللہ بے نیاز ہے اپنا دین بچا لے گا مگر یاد رکھیں۔۔۔ روز محشر آپ دین کا ساتھ دینے والوں میں نہیں ہونگے۔ اپنے اپنے فرقوں میں رہتے ہوئے مسلکی انتشار اور شدت کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنی اولاد کو دینی رواداری کا سبق دین۔ مسلکی انتشار اس وقت امت کا سنگین مسئلہ ہے جس کا بھر پور فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے۔ آئیے گھریلو سطح پر مسلکی انتشار کو مسلکی اتحاد میں بدل دیں۔۔

متعلقہ مضامین / خبریں

Back to top button